جیل
اور پولیس
جیل اور پولیس راولپنڈی کی پہلی یا
پرانی جیل کی تعمیر 1865 میں عمل میں لائی گئی ۔ اس وقت اس میں 915 یعنی 855 مرد اور 80 زنانہ قیدیوں کی
گنجائش تھی۔ قیدیوں کی 15 بیرکس تعمیر کی گئی تھیں ۔ ان کے علاوہ
پندرہ کوٹھڑیاں تھیں۔ اس میں پشاور، کوہاٹ، جہلم اور راولپنڈی کے قیدیوں کو رکھا
جاتا تھا۔ ۱۸۵۶ تا ۱۸۶۱ کے درمیانی عرصہ میں ۱۳ قیدی فرار ہو گئے ۔ لہذا اس جیل کو مزید مضبوط بنانے کے لئے برج اور
مضبوط دیوار تعمیر کی گئی۔ ابتدا میں ڈی سی ای پولیس کا بھی سر براہ ہوا کرتا تھا۔
مگر ۱۸۵۳ میں سپرنٹنڈنٹ پولیس جسے عرف عام میں پولیس کپتان کہا جاتا تھا، کی
آسامی منظور کر کے اس کو پولیس کا افسر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ ابتدا میں ایک ڈیٹی،
سات انسپکٹر، ۲۶ ڈپٹی انسپکٹر موجودہ سب انسپکٹر، ۳۰ حوالدار گریڈ اول، ۴۰ گریڈ روم اور ۶۵ گریڈ سوم کل ۱۳۵ حوالدار، ۳۱ گھوڑے سوارسپاہی
اور ۸۳۲ عام سپاہی ہوا کرتے تھے۔ سپاہیوں کے بھی دوگریڈ تھے۔ سپاہی کی
تنخواہ معہ وردی و خرچ خوراک 8 روپے ماہانہ تھی۔ ۱۸۹۳ میں پولیس کی تعداد بڑھا کر ۱۲۴ا کر دی گئی۔ ان
میں سے 149ریزور تھے، ضلع میں تعینات ۷۶۹، چھاؤنی میں ۱۳۵ اور شہر میں ۱۳۶ نفری تھی۔ پولیس کی مدد کے لئے ضلع میں
۳۳ چوکیدار تھے۔ ان کو تین سے چار روپے ماہانہ تنخواہ ملی تھی۔ ۱۸۵۳ میں ۱۳ تھانے، ۱۳ پھاٹک مویشیاں
اور پانچ چوکیاں تھیں۔ راولپنڈی میں شہر ، چھاؤنی اور لال کرتی جب کہ دیہات میں
روات، مندره، جاتلی، گوجرخان، شکر، کہوٹہ، کوٹلی، مری، سنگ جانی اور چونترہ تھانے
تھے۔ چوکیاں، سیلاہ (چھتر) تریٹ، دیول اور کرور اور گھوڑا گلی تھیں۔ ان تھانوں اور
چوکیوں کے ساتھ پھاٹک مویشیاں بھی تھے۔ ۱۹۰۵ میں بھگواڑی سیٹی بنک، راولپنڈی شہراے
تاڈی ڈویژن، رتہ اور لالکڑتی پولیس چوکیوں کا اضافہ کیا گیا۔ ڈی ڈویژن چوک لیاقت
روڈ پر نشاط سینما کے سامنے جہاں اونچے مینار والی مسجد بنی ہوئی ہے، ہوا کرتی تھی۔
1997 میں یہ جگہ مسجد نے حاصل کرلی جس کے باعث اس چو کی کوسٹی تھانہ میں مدغم کر دیا
گیا ۔ ان کے علاوہ بعض گاؤں میں تعزیری چوکیاں بھی قائم تھیں۔
پولیس افسر اعلیٰ کو پولیس کپتان کہا جاتا تھا۔
اس کے ماتحت ایک اے۔ ایس۔ پی۔ ہا ڈی ایس پی ہوتا تھا۔ جس کو پولیس لیفٹینٹ کہا
جاتا تھا۔ پورے ضلع میں چار انسپکٹرز پولیس تھے۔ ایک کوڈی۔ آئی ۔ پی ( ڈسٹرکٹ
انسپکٹر پولیس ) کہا جاتا تھا۔ ان میں ایک ہیڈ کوارٹر میں رہتا ۔ ایک ونیکل
انسپکٹر ، تیسراسٹی انسپکٹر اور چوتھا چھاؤنی انسپکٹر کہلاتا تھا۔ ضلع میں کل ۱۴ ( چودہ
) تھانے تھے۔ ان کو تھانہ مری، کوٹلی ستیاں، کہوٹہ، کلر، گوجرخان جاتلی ،مندره ،روات،
بہارہ کہو، گولڑہ اور سنگ جانی کہا جاتا تھا۔ ان دیہاتی تھانوں کے علاوہ راولپنڈی
میں ایک سٹی پولیس سٹیشن، چھاؤنی پولیس سٹیشن اور لال کرتی پولیس سٹیشن تھے۔ ایک
اور تھانہ صدر بیرونی میں تھا۔ اگر چہ یہ تھانہ کچہری کے پاس مگر یہ انتظام پنڈی
سے باہر کےعلاقہ کا کیا کرتا تھا۔ شہر پنڈی میں چار چوکیاں تھیں ۔ جن کو اے۔ ڈویژن،
بی، سی اور ڈی ڈویژن کہا جاتا تھا۔ ہرتھانے کا انچارج سب انسپکٹر اور ہر چوکی کا
انچارج حوالدار ہوا کرتا تھا۔ آج کل اے۔ ڈویژن کو تھانہ گنج منڈی، بی ڈویژن کو
تھانہ بنی اور سی کو تھانہ وارث خان کہا جاتا ہے۔(مصنف کے دور میں ایسا ہی ہو گا
مگر ابھی راولپنڈی میں SIPS
تھانے بنائے گئے ہیں) ڈی ڈویژن لیاقت روڈ بالمقابل نشاط سینما تھی ۔ آجکل وہاں مسجد بن گئی
ہے۔ ان تھانوں کے علاوہ کوتوالی تھی وہ آج بھی اسی جگہ اور اسی نام سے موجودہ ہے۔ یہاں
ریزرو (Reserve)
پولیس ہوتی تھی۔ یہاں ہی سٹی انسپکٹر کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ علاوہ ازیں یہاں پولیس کا
لنگر تھا۔ راولپنڈی شہر کے تمام پولیس سپاہی اس لنگر سے کھانا کھاتے تھے۔ ہر تھانے
میں عملہ کی تعداد بارہ اہلکاروں پر مشتمل ہوتی تھی۔ سب انسپکٹر، اسٹنٹ سب انسپکٹر
محرر اور ۹ (نو) سپاہی بعض تھانوں میں تفتیشی حوالدار بھی ہوتا تھا۔ ہر تھانے میں
ایک ایف سی فٹ کا نسٹیبل ہوتا تھا۔ جو عدالتی سمن وغیرہ کی تعمیل کراتا تھا۔ تھانے
دار دونوں خاکی پگڑی اور کلاہ استعمال کرتے تھے۔ تھانے داراورنائب تھانے دار کو
لازمی گھوڑا رکھنا پڑتا تھا۔ اُس کا اُن کو ماہانہ الا ونس ملتا تھا۔ جس کو پونی
الاؤنس (Pony Allowance)
کہا جاتا تھا۔ امن و امان کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی دیہات میں پولیس کا سپاہی چلا
جائے تو لوگ ڈر کے مارے کانپ اٹھتے ۔ ہر شخص حتی کہ عورت بھی رات کے وقت اکیلی سفر
کرسکتی تھی۔ پولیس پرچہ درج کرنے سے پہلے پوری چھان بین کیا کرتی تھی اور پرچہ تقریباً
سچا ہوا کرتا تھا اور پرچہ درج کرنے کے بعد یہ پولیس کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ
عدالت میں سچ ثابت کرے ورنہ پرچہ نا کام ہوئے کی صورت میں تھانے دار کے خلاف سخت
ترین کروائی عملی میں لائی جایا کرتی تھی۔ چوروں، ڈاکوؤں اور بد قماش لوگوں کا
مکمل ریکارڈ ہر تھانہ میں ہوتا تھا ان کو ہسٹری ٹیٹر (History Sheeter)
کہا جاتا تھا۔ عرف عام میں ان کو ۹ نمبر یا ۱0 نمبر کا بدمعاش کہا جایا کرتا تھا۔ پولیس کی مدد کیلئے ذیلدار اپنی
ذیل کے بے تاج بادشاہ ہوتا تھا۔ تھانہ چونترہ ان دنوں ضلع کیمبل پور (اٹک) کا حصہ
تھا۔
ضلع راولپنڈی کے پولیس سٹیشن
1
کوتوال
شہر کا ہیڈ آفس، فوارہ چوک سٹی صدروڈ
2
تھانہ
سنگ جانی
3
مرکزی
تھانہ شہر، متصل زوز سینما
4
الف
ڈویژن تھانہ، متصل پل لئی
5
تھانہ
گولڑہ
6
تھا
نہ بارہ کہو
7
بی
ڈویژن تھانہ، سید پور روڈ
8
سی
ڈویژن تھانہ، محلہ چوہدریاں
9
سیٹلائٹ
ٹاؤن، پولیس چوکی
10
ڈی
ڈویژن تھانہ، لیاقت روڈ
11
چوکی
پولیس نئی چھاؤنی
12
چوکی
پولیس چک لاله
13
چوکی
پولیس لال کرتی
14
تھانہ
صدر بیرونی، چک لالہ روڈ
15
چوکی
پولیس، رت امرال
16
تھا
نہ ریلوے پولیس اسٹیشن راولپنڈی
17
تھا
نہ مرکزی، صدر چھاؤنی
18
تھانہ
کوہ مری
19
تھانہ
کوٹلی
20
پولیس
چوکی تریٹ
21
پولیس
چوکی جھینگا گلی
22
پولیس
چوکی گھوڑا گلی
23
تھا
نہ کہوٹہ :
24
تھانہ
کلر سیداں
25
تھانہ
گوجر خان
26
تھانہ
جاتلی
27
تھانہ
مندرہ
28 تھانہ روات
اور کئی مقامات پر بھی پولیس چوکیاں قائم ہیں۔ جہاں سے شہر وضلع راولپنڈی کے طول و عریض علاقوں کےنظم ونسق کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اور ہر قسم کے جرائم کے انسداد کے لئے پولیس سر گرم عمل رہتی ہے۔
(انتخاب عقیل احمد قریشی.یہ تحریر عارف راجہ کی کتاب تاریخ راولپنڈی و تحریک پاکستان سے لی گئی ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
لمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا