سی حرفی (ابتداء اور تدریجی ترقی ):
سی حرفی دو لفظوں کا
مجموعہ ہے پہلا لفظ فارسی اور دوسرا عربی زبان سے ماخوذ ہے اس مرکب کا اطلاق ایسی
صنف شاعری پر ہوتی ہے جس کا تعلق نہ تو ایران سے ہے اور نہ عرب ممالک سے بلکہ
خالصتاً پاکستان کے اُن علاقوں کے ادب سے اس کا تعلق ہے جہاں علاقائی زبانیں بولی
جاتی ہیں جیسے سندھی ، سرائیکی، ہندکو اور پنجابی وغیرہ ۔ فارسی میں سی“ کے معنی تیس
کے ہیں ۔ عربی حرف کے ساتھ یائے نسبتی لگا کرسی حرفی کا مرکب بنا لیا گیا ہے۔ یہ
صنف شاعری مذکورہ چاروں علاقائی بولیوں کے ادب میں دلچسپی سے دلچسپی سے لکھی اور
پڑھی جاتی ہے۔ پنجابی چالیس حرفی اور فارسی کے حروف ابجد سینتیس (۳۷) ہیں۔ عربی کے کل حروف
ابجد اٹھائیس ہیں۔ ان اٹھائیس حروف میں عربی کے دو حروف کی اور یے کا اضافہ کر کے
تئیس حروف کا اعداد پورا کیا گیا۔ اس طریقے سے یہ دلچسپ صنف شاعری وجود میں
آگئی۔غفران سید اپنے ایک مضمون پنجابی سی حرفی دافن تے مختصر تاریخ میں لکھتے ہیں:
"پنجابی زبان کے پہلے با قاعدہ شاعر حضرت
بابا فرید الدین گنج شکر (۵۶۹
تا ۶۶۴) کو
قرار دیا گیا ہے۔ وہ خود بھی فارسی نژاد
تھے۔ اسلام کے عظیم مبلغ اور ولی کامل تھے۔ اپنے تبلیغی مقاصد کے لئے جو زبان
استعمال کرتے تھے اُس پر فارسی زبان کا اثر بہت نمایاں تھا"۔
اسی اثر خیزی کے نتیجہ میں
یہ صنف وجود میں آئی اور رفتہ رفتہ یہ نو خیز کھیتی سیراب ہوتی ہوئی لہلہانے لگی۔
ادق مضامین کو ادا کرنے کے قابل ہو کر پنجابی ادب کی یہ صنف ادب و شعر کے لذت آفرین
اصناف میں شمار ہونے لگی شائد ہی اثر کو محسوس کرتے ہوئے پنجابی ادب کے مشہور نقاد
اور قلم کار باوا بدھ سنگھ (۱۸۷۸ء
۔ ۱۹۲۶ء)
نے یہ الفاظ لکھ دیئے تھے کہ پنجابی کو یتا (شاعری) نوں فارسی زبان دی گڑھتی ملی
ہوئی اے۔
سی حرفی نگار شعراء نے
اپنی سی حرفیاں لکھتے وقت کئی ایک حروف ابجد ترک کر دیئے۔ ی اور ہمزہ کے حروف کو
اشعار کے ابتداء میں استعمال نہیں کیا اس لئے اکثر سی حرفیاں حروف کی تعداد میں
نامکمل ہیں۔ البتہ مولا شاہ کی تین سی حرفیاں ایسی ہیں جن میں ہائے ہوز (لا) کے علاوہ
لا اور ہمزہ کو بطور حروف تہجی
استعمال کیا گیا ۔ جیسے:
لامکان مکان کوئی نہ ، کیکر گذر ہووے لامکان اُتے
لامکان دا نام ہے عدم مطلق ، لگی قید آسماناں دے ناں
اُتے
چار مرکب زمین تے خبر سانوں ، رب جانے کیہ گل آسمان آتے
مولا شاہ سائیں
آب باد آتش ، و سے خاک دے سارا جہان آتے
آئی عید روزے
داراں دل کے ، چند دیکھ لیا چڑھیا عید داجی
ث س ص اک جگہ لگدے ، صورت مختلف شبہ شنید دا جی
تینوں یار ملے چند عید پڑھے ، سکھ جو چورمہ پیر شہید دا
جی
محی الدین ہے پیراں دا پیر مولا ، ڈبدا تارے جہاز مرید
دا جی
سائیں مولا شاہ ۱۸۶۷ء میں امرتسر کے قریب پیدا
ہوئے۔ درویش مجذوب بزرگ تھے۔ اُن کے جذب و سلوک کا عالم خود اُن کے کلام سے ظاہر ہورہا
ہے۔
سی حرفی بھی بارہ ما ہے کی
طرح چار مصرعوں میں لکھی جاتی ہے۔ کئی سی حرفیاں ابیات کے نام سے لکھی ہوئی ملتی ہیں
جیسے حضرت سلطان باہو کے ابیات جو دراصل سی حرفیاں ہیں۔ بعض شعراء نے سی حرفی کے
لئے چو مصرعی ہم قافیہ نظم کو اپنا اصول بنایا اور بعض نے اس سے مختلف روش اختیار
کی ۔ جیسے تارا چند گجراتی نے چار مصرعہ کی بجائے ایک ایک مصرعہ کا طریقہ اپنایا جیسے:
الف۔ ابر ب بہار بزم عشرت تے موسمی لطف کمال نالے
ت تیار طبلہ
طنبور ڈھولک خوش آواز مطرب تے نقال نالے
اسی طرح میراں شاہ جالندھری ولادت ۱۸۳۹ء نے اپنی سی حرفی ڈیوڑھ
کے اندازمیں لکھی مثلاً
ج۔ جگر وچ زخم ہجر دا کس نوں پھول دکھاواں کس در جاواں
با ہجھ کجھ وصل
علاج نہ کوئی سو سو مرہم لاواں ، نفع نہ پاواں
بر ہوں ظالم اندر وڑیا کیونکر جان بچاواں ، خاک سماواں
میراں شاہ دربار خواجہ دے رو رو حال سناواں ، تاں سکھ
پاواں
ایک مطبوعہ سی حرفی دیوانہ ملتی ہے جس کے مصنف کی کوئی
خبر نہیں۔ یہ پنجابی مسدس کی بحر میں لکھی ہوئی ہے ایک بند ملاحظہ کیجئے۔
غ ۔ غلط کہیاں اذان گناہ ہووے ، لوکی حضرت بلال نوں آن
کہندے
گل سنی بلال تے رون لگے ، ذرا دسو کرو دھیان کہندے
جہیڑی نبی دا ناں نہ ٹھیک آکھے ، کٹ دیواں میں ایسی
زبان کہندے
پر اوہ رب رسول
نوں لگے پیاری ، ایسے عشق تے نال ایمان کہندے
چنگی لگے اذان بلال والی ،وحی بھیج کے آپ رحمان کہندے
کدی نہ دیوانیاں
صبح ہوندی ، جےنہ کدی بلال اذان کہندے
بابا گرونا نک (۱۴۶۹ء تا ۱۵۳۸ء) نے بھی کچھ کلام سی
حرفی کی ہیئت میں لکھا تھا۔ جو گرو گرنتھ میں موجود ہے۔ گرو جی مغلوں کے ابتدائی
زمانے یعنی بابر بادشاہ کے دور میں ہوئے ہیں۔ وہ صلح گل نظریے کے مالک اور وحدت ادیان
کے مبلغ تھے۔ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کو یہی تعلیم دیا کرتے تھے اور خود بھی اسی
تعلیم پر عمل کیا کرتے تھے۔ گرنتھ صاحب میں لکھتے ہیں۔ ل۔ لعنت بر سر تنہاں جو ترک
نماز کریں ، تھوڑا بہت کھٹیا ہتھو ہتھ گرہن
م - محمد توں من کتاباں چار ، من خدائے رسول نوں سچا ای
دربار
شاہ حبیب (م ۔ ۱۰۸۰ھ ) لیہ مظفر گڑھ کے رہنے والے اور حضرت سلطان
باہو کے ہم عصر تھے، ایک جگہ لکھتے ہیں۔
ب۔ باقی دن چار
دیہاڑے ، پھو کیا پھیریں سندارا
مغز کنوں مغرور پھریں ، تینڈے اندر وچ اندھارا
سمجھ حبیب صحیح کر سمجھیں ، گذر گیوں دن سارا
اب یہ دیکھنا چاہیے کہ سی
حرفی کسی قدر قدیم صنف شاعری ہے اور پہلا سی حرفی نگار ہونے کا شرف کس شخصیت کو
حاصل . ہے۔ محققین وضاحت کرتے ہیں کہ سی حرفی کے وجود میں آنے سے پہلے بارہ ماہے کی
صنف موجود تھی۔ اسی بنیاد پر سی حرفی کا آغاز ہوا۔ پروفیسر موہن سنگھ ماہر ( پیدائش
۳۰ ستمبر ۱۹۰۵ء ساکن تخت پڑی تحصیل و
ضلع راولپنڈی) کی تحقیق کے مطابق پنجابی شاعری کی اڑھتیس (۳۸) اصناف سخن ہیں جن میں
بارہ ما ہے، ستوارے، اٹھوارے، دوہڑے اور چوپائی وغیرہ شامل ہیں ۔ جن کا مختصر
تعارف حسب ذیل ہے۔
بارہ ما ہے:
ایسی صنف شاعری جس میں
بارہ دیسی مہینوں کی مناسبت سے شعری بند لکھے جاتے ہیں۔ ہر مہینے کا بند الگ اور
موسمی ماحول کے مطابق ہوتا ہے۔ پنجابی بارہ ماہ کا پہلا شاعر مسعود سعد سلمان
لاہوری (۱۰۴۶ء
تا ۱۱۶۱ء
) کو قرار دیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مسعود نے تین دیوان مرتب کئے تھے۔ ایک
فارسی دوسرا عربی اور تیسرا ہندی یعنی پنجابی دیوان تھا۔ فارسی کے علاوہ باقی
دونوں دیوان دست برد زمانہ سے نا پید ہو گئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغلوں سے
پہلے پنجابی کو ہندی یا ہندوی کا نام دیا جاتا تھا۔ اس کی دلیل حضرت امیر خسرو (۱۲۵۴ء تا ۱۳۲۴ء) کا ہندوی کام ہے۔
مسعود کا فارسی دیوان تقریباً آٹھ سو صفحات میں تہران ( ایران ) سے بڑی نفاست کے
ساتھ شائع ہوا ہے۔ مسعود سعد غزنوی دور کا شاعر تھا۔ پنجابی زبان میں لکھے گئے زیادہ
تر بارہ ما ہے بکرمی کیلنڈر کے مطابق دیسی مہینوں کے نام کے ساتھ لکھے گئے ہیں، ان
کا ابتدائی بند عموماً چیت (چیتر ) سے شروع ہوتا ہے۔ بعض شعراء نے اُردو زبان میں
بارہ ما ہے لکھے ہیں۔ اس صنف میں بحر یا وزن کی کوئی قید نہیں۔ یہ کسی بھی بحر میں
تخلیق کئے جاسکتے ہیں۔ موضوعاتی اعتبار سے عشق و حسن، وصل و فراق کے علاوہ زندگی کی
گوناگوں کیفیات کے بارے میں تاثرات کا اظہار ہوتا ہے۔ مثلاً ہدایت اللہ کا ایک بند
دیکھئے:
چیتر چا او ساکھ ساتھ نوں
وصل لوڑاں چڑھیا جیٹھ جانی میرا یار گیا
ہاڑے ہاڑ گھستاں ساون
سواں تائیں بھادوں بھاہ لگائی کے مار گیا
اسوں وگن آنسو کنیں کون
کے ما گھر بلک رہیاں سوہناں یار گیا
پوہ پورا کیکر ماگھ ماہی باہجوں پھکن آن ہدایت
نوں ساڑ گیا
ست وارے:
اس صنف میں ہفتے کے سات
دنوں کی مناسبت سے اپنی قلبی واردات یا کیفیت کو بیان کیا جاتا ہے۔ اس میں بحر یا
وزن کی کوئی پابندی نہیں۔
ج اٹھوارے:
یہ صنف بھی ہفتے کے آٹھ دنوں کی مناسبت سے تخلیقی عمل میں
لائی جاتی ہے۔ حضرت بلھے شاہ کے کلیات میں زور دار طریقے سے اس صنف کو کافی کی بحر
میں لکھا گیا ہے۔ اس حصے میں بھی حضرت موصوف نے اپنے روایتی زور قلم کا جوہر دکھایا
ہے۔ وہی بے باکی اور وہی فلسفہ طرازی جو اکثر آپ ہی سے مخصوص رہتی ہے۔
رچوپائی:
چوپائی چار مصرعے کا بند ہوتا ہے جس میں فارسی رباعی کی
طرح ایک ہی خیال بند کیا جاتا ہے۔ رباعی مخصوص اوزان میں لکھی جاتی ہے جبکہ چوپائی
میں کسی بحر یا وزن کی قید نہیں ہوتی۔ پروفیسر موہن سنگھ کی چوپائی کا نمونہ دیکھئے۔
اج میں تکیا اکھاں نال ، وچ گدڑی دے لگیا لال
پھٹی بنتی گنڈھیا چولہ ، سر دے اُتے پھٹ پرولا
پروفیسر مذکور کے مطابق بابا گرونانک سی حرفی کے پہلے
شاعر تھے لیکن پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی اس دعوے کو قبول نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں
کہ حضرت سلطان باہو سے پہلے کی سی حرفی کا کوئی وجود نہیں تھا اس لئے کسی حرفی کے
موجد۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
لمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا