بدھ، 10 ستمبر، 2025
وہ جو سندھو کو نہیں جانتے۔۔۔ان کے لیے
جمعہ، 5 ستمبر، 2025
علاقہ نلہ اٹک کا قدیم ترین گاؤں کوٹ سونڈکی
علاقہ نلہ اٹک کا قدیم ترین گاؤں کوٹ سونڈکی






برصغیر میں بجلی کی تاریخ
کوئی بتا سکتا ہے کراچی۔ لاہور اور راولپنڈی میں کب پہلی مرتبہ بجلی فراہم کی گئی؟؟
برصغیر میں بجلی کی تاریخ ۔۔۔
1900 کی دہائی میں مدراس متحدہ بھارت میں زیر زمین بجلی کی فراہمی کے لئے تاریں بچھانے کا عمل1900 کی دہائی کے اوائل میں، بھارت میں بجلی کی فراہمی کا نظام ترقی کے ابتدائی مراحل میں تھا۔ برطانوی راج کے تحت، بجلی کی بنیادی سہولتیں بڑے شہروں تک محدود تھیں، اور ان میں بھی زیادہ تر بجلی کے کھمبے اور اوور ہیڈ کیبلز کے ذریعے سپلائی ہوتی تھی۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ، شہروں میں جدیدیت اور شہری آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ نے زیر زمین بجلی کی فراہمی کے نظام کی ضرورت کو اجاگر کیا۔
زیر زمین بجلی کی فراہمی کی ابتدا
بمبئی (موجودہ ممبئی) اور کلکتہ (موجودہ کولکاتا) جیسے بڑے شہروں میں زیر زمین بجلی کی فراہمی کا آغاز کیا گیا۔ اس کا مقصد بجلی کے نظام کو زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد بنانا تھا۔ اوور ہیڈ کیبلز کے بجائے، زیر زمین کیبلز استعمال کی جانے لگیں، جو نہ صرف بجلی کی چوری اور حادثات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوئیں بلکہ قدرتی آفات جیسے طوفانوں اور بارشوں کے دوران بجلی کی فراہمی کو زیادہ مستحکم بناتی تھیں۔
بمبئی میں 1920 کی دہائی میں زیر زمین بجلی کی فراہمی کا آغاز ہوا۔ اس وقت شہر میں صنعتی ترقی عروج پر تھی اور بجلی کی طلب میں اضافہ ہو رہا تھا۔ شہر کے مرکزی علاقوں، جیسے فورٹ اور کولابا، میں زیر زمین کیبلز بچھائی گئیں۔ اس منصوبے نے بمبئی کو جدید شہری انفراسٹرکچر کے ساتھ آگے بڑھنے میں مدد دی اور شہر کے بجلی کے نظام کو مزید بہتر اور محفوظ بنایا۔
کلکتہ، جو اس وقت برطانوی ہندوستان کا دارالحکومت تھا، میں بھی زیر زمین بجلی کی فراہمی کے منصوبے پر کام کیا گیا۔ شہر کے قدیم اور گنجان آباد علاقوں میں بجلی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے یہ ایک ضروری قدم تھا۔ زیر زمین بجلی کی کیبلز نے شہر کے بجلی کے نظام کو زیادہ مؤثر اور طویل مدتی بنایا۔
زیر زمین بجلی کی فراہمی کے نظام نے بھارت کے شہروں میں شہری ترقی کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا۔ اس نظام کے فوائد میں بجلی کے نظام کی حفاظت، استحکام، اور دیرپا کارکردگی شامل تھی۔ اس کے علاوہ، یہ نظام شہروں کے جمالیاتی منظر کو بھی بہتر بناتا تھا، کیونکہ بجلی کی کھمبوں اور اوور ہیڈ کیبلز کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔
1900 کی دہائی میں بھارت میں زیر زمین بجلی کی فراہمی کا آغاز ایک انقلابی قدم تھا، جس نے شہری علاقوں میں بجلی کی فراہمی کو زیادہ مؤثر، محفوظ، اور جدید بنایا۔ اس وقت کے منصوبے آج بھی بھارت کے بڑے شہروں میں زیر زمین بجلی کے نظام کی بنیاد ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید ترقی کرتے چلے گئے۔
صفدر حسین شاہ
پی آئی اے کی پرواز PK-705 ایک المناک افتتاحی سفر، 20 مئی 1965
پی آئی اے کی پرواز PK-705
ایک المناک افتتاحی سفر، 20 مئی 1965
انیس سو ساٹھ کی دہائی پی آئی اے کے عروج کا زمانہ تھا۔ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں اس کا نام لیا جاتا تھا۔ انہی دنوں 20 مئی 1965 کو پی آئی اے نے اپنی افتتاحی پرواز کراچی سے لندن کے لیے روانہ کی۔ یہ پرواز دہران (سعودی عرب)، قاہرہ (مصر) اور جنیوا (سوئٹزر لینڈ) پر رک کر آگے لندن پہنچنی تھی۔
وہ جہاز جدید بوئنگ 720-040B (AP-AMH) تھا اور اس میں کل 127 مسافر اور عملہ سوار تھا۔ ان میں نامور صحافی، مختلف ممالک کے مہمان، ٹریول ایجنسیوں کے نمائندے اور پی آئی اے کا بہترین عملہ شامل تھا۔ سب سے مشہور چہرہ ایئر ہوسٹس مومی درانی تھیں، جنہیں اس زمانے میں “پی آئی اے کا چہرہ” کہا جاتا تھا۔ حادثہ کیسے ہوا
جب جہاز قاہرہ ایئرپورٹ پر اترنے کے قریب تھا تو پائلٹ نے بتایا کہ جہاز کے فلیپس میں خرابی آگئی ہے۔ جہاز نے ایک چکر لگایا اور پھر رن وے 34 پر اترنے کی کوشش کی، مگر اونچائی برقرار نہ رکھ سکا اور زمین سے پہلے ہی ٹکرا گیا۔ جہاز کا دایاں پر فوراً آگ پکڑ گیا اور لمحوں میں پورا جہاز شعلوں میں گھِر گیا۔
اس بھیانک حادثے میں صرف چھ افراد زندہ بچے۔ باقی سب — صحافی، مسافر، عملہ — ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ ان میں چین کے بڑے جہاز ساز ہوانگ ژی چیان بھی شامل تھے۔ زندہ بچنے والے شوکت اے میکلائی کی کہانی
زندہ بچ جانے والوں میں شوکت اے میکلائی بھی تھے، جو اپنی اہلیہ بانو کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ وہ یاد کرتے ہیں:
“یہ ہمارا تیئسواں ہنی مون تھا۔ بانو فرسٹ کلاس میں تھیں اور میں پیچھے اکانومی میں۔ جیسے ہی جہاز اترنے لگا، میں نے جہاز کے دائیں پر کو جلتے دیکھا اور پھر بے ہوش ہوگیا۔
جب آنکھ کھلی تو میں اپنی مدد کے بجائے اپنا ہی نام پکار رہا تھا۔ ایک زخمی نوجوان، جو خود بھی لہولہان تھا، مجھے کھینچ کر باہر لے آیا۔ اردگرد لاشیں اور سامان بکھرا پڑا تھا۔ میری بیوی بھی ان میں تھی۔ دل پتھر ہوگیا تھا، کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اس لمحے اللہ سے دعا کی کہ اگر زندگی ملی تو دوسروں کے لیے جیوں گا، جیسے کل کبھی آئے گا ہی نہیں۔” حادثے کے بعد کا منظر
اصل تکلیف حادثے کے بعد شروع ہوئی۔
شوکت میکلائی بتاتے ہیں:
“ہم نے دیکھا لوگ دور سے دوڑتے آرہے ہیں۔ ہم سمجھے مدد کے لیے آ رہے ہیں۔ وہ ‘اللہ اکبر’ کہہ کر پہنچے مگر زخمیوں کو اٹھانے کے بجائے سامان اور بیگ اٹھا کر چلتے بنے۔”
مدد پانچ چھ گھنٹے بعد پہنچی۔ تب تک کئی زخمی تڑپ تڑپ کر جان دے چکے تھے۔ مصری حکام اتنے بڑے حادثے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ جو ہیلی کاپٹر آیا اس میں اسٹریچر تک نہیں تھا۔
آخر میں صرف چھ لوگ بچ پائے۔ باقی سب قاہرہ کی مٹی میں دفن ہوگئے۔ جب زندہ بچنے والے کراچی واپس آئے تو عوام نے ان کے زندہ بچ جانے کو معجزہ سمجھا اور یادگار استقبال کیا۔
شوکت میکلائی کے لیے یہ زندگی کا سب سے بڑا موڑ تھا۔ اچانک بیوی کے بغیر، تین بچوں کا باپ، لیکن ہمت اور ایمان کے ساتھ انہوں نے نیا سفر شروع کیا۔ یاد رہے کہ شوکت مکلائی 95 برس کی عمر میں 2014 میں اس دبیا سے رخصت ہوگئے۔
آج بھی PK-705 کی تباہئ جیسے واقعات یہ سبق دیتے ہیں کہ زندگی بہت نازک ہے، کل کا کوئی یقین نہیں۔ ایسے حادثات میں اصل امتحان یہ بھی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو انسانیت دکھائی جائے، نہ کہ مشکل میں گھرے لوگوں کو بے یارو مددگار تڑپتا چھوڑ دیا جائے۔
PIA Flight PK-705
A Tragic Inaugural Journey – 20 May 1965
The 1960s were the golden era of Pakistan International Airlines (PIA). It was counted among the finest airlines in the world. During that period, on 20 May 1965, PIA launched its inaugural flight from Karachi to London. The route included stopovers at Dhahran (Saudi Arabia), Cairo (Egypt), and Geneva (Switzerland) before reaching London.
The aircraft was a modern Boeing 720-040B (AP-AMH), carrying 127 passengers and crew. Among them were well-known journalists, international guests, representatives of travel agencies, and some of PIA’s finest staff. The most famous face on board was the iconic air hostess Momie Durrani, remembered in those days as “the face of PIA.” How the Crash Happened
As the aircraft neared Cairo International Airport, the pilot reported a problem with the flaps. The plane circled once and then attempted to land on Runway 34. But it failed to maintain height and struck the ground before the runway. The right wing immediately caught fire, and within moments the entire aircraft was engulfed in flames.
Out of all on board, only six survived. Everyone else — journalists, passengers, crew — perished forever. Among the victims was Huang Zhiqian, China’s chief aircraft designer. The Story of Survivor Shaukat A. Mecklai
Among the six survivors was Mr. Shaukat A. Mecklai, who was traveling with his wife Bano. He recalled:
“It was to be our 23rd honeymoon. Bano was seated in first class while I was in economy at the back. As the plane prepared to land, I saw the right wing on fire — and then I blacked out.
When I regained consciousness, I found myself shouting my own name instead of calling for help. A young passenger, bleeding heavily himself, dragged me out. All around us were bodies and scattered luggage. My wife was among them. My heart turned to stone; I could not react. At that moment, I prayed to God that if I was given another chance at life, I would live for others — as if tomorrow would never come.” The Scene After the Crash
The real agony began after the crash.
Mr. Mecklai said:
“We saw people running towards us from afar. We thought they were coming to help. They came shouting ‘Allahu Akbar’ — but instead of lifting the injured, they picked up luggage and bags and walked away.”
Rescue arrived five to six hours later. By then, many of the wounded who had been crying in pain had already died. The Egyptian authorities were completely unprepared for a disaster of this scale. Even the helicopter that came lacked stretchers.
The Aftermath
In the end, only six survived. The rest were laid to rest in the soil of Cairo. When the survivors returned to Karachi, the people received them as if they were miracles, welcoming them with unforgettable emotion.
For Shaukat A. Mecklai, it was the greatest turning point of his life. Suddenly a widower, and father of three young children, he chose to carry on with courage and faith. He lived a long life and eventually passed away in 2014 at the age of 95.
Even today, the story of Flight PK-705 teaches us a lasting lesson:
Life is fragile, and tomorrow is never guaranteed. In tragedy, the true test is whether humanity is shown — or whether the wounded are left helpless.
#memorylanesofpakistan #memories #PakistanHistory #Pakistan #aircrash #pakistaninternationalairlines #cairo #PIA
اتوار، 31 اگست، 2025
یونین کونسل سوہن کے نگینے لوگ،آتش نواز آتش
یونین کونسل سوہن کے نگینے لوگ
خطہ پوٹھوار کے نامور شاعر ادیب اہل ادب اہل ذوق اہل علم اور محبت چاہت اور خلوص کے بے باک پیکر اور استادوں کے استاد باوا محمد آتش نواز مرحوم او مغفورآپ بالترتیب بھائی بلال اور بھائی خبیب کے والد اےگرامی مرحوم مغفور ہیں آج ہم آپ کو یونین کونسل سوہن کے نواحی گاؤں سمبلی سے تعلق رکھنے والی بندہ اے پرور ہستی سے اپ کا تعارف کرواتے ہیں بے شک باوا آتش نواز مرحوم کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے میرے پاس وہ الفاظ تو نہیں جو باوا آتش نواز مرحوم کی شخصیت کا اخاطہ کرسکیں بس اتنا ہی کہوں گا کہ ایسے نایاب ہیرے بڑے خوش قسمت لوگوں کو اور اہل ادب لوگوں کو میسر ہوتے ہیں اور یہ ہمارے علاقے کی خوش قسمتی بھی تھی کہ ان جیسے مفکر اے اسلام اور تاریخ سے تعارف کروانے والی ہستی اللہ پاک نے سمبلی گاوں میں پیدا فرمائی تھی باوا آتش نواز مرحوم نے شاعری کے حوالے سے دین اور دنیا کی ترجمانی کرتے ہووے بے شمار کتابیں لکھی ہیں آپ کا اس دنیا فانی سے چلے جانے سے اہل علم اہل ادب کا ایک باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا ہے اور اپ کے اس دنیا سے جانے کے بعد ایساخلاء پیدا ہوا ہے جس کو پر ہونےمیں بہت ٹائم لگے گا باوا آتش نواز مرحوم شاعری کے ساتھ سکول ٹیچر بھی تھے اور انہوں نے آپنے علاقے کے طالب علموں کو علم کی روشنی سے بھی منور فرمایا آپ نے آپنے علاقے کے لوگوں کی روحانی تربیت بہت احسن طریقے سے کی آپ سمبلی گاوں کے لوگوں کے لئے اور خاص او خاص یونین کونسل سوہن کے لئے کسی قدرت کے انمول تحفہ سے کم نہ تھے اور آپ لوگوں میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں تقسیم کرنے والے اللہ کی طرف سے خاص عنایت تھے آپ جدہر بھی جاتے ہمیشہ آپ کے پاس لوگوں کا ہجوم لگارہتا تھا آپ نے ہمیشہ امن بھائی چارے اور آپس میں محبت پیار کا درس لوگوں کو دیا ہے آپ کے دونوں بیٹے بلال آتش اور خبیب آتش صاحب بھی بہت اچھے انسان ہیں ان سے اگر ملاقات ہوتو ان سے بھی باوا آتش نواز کی تصویر نظر آتی ہےہفتہ، 30 اگست، 2025
ارشاؔد حسین نمبل شریف کا چو مصرع کلام
چھیڑ بکریاں دے جیڑا چاردا سی دو جہاناں دا سپہ سالار بنیا |
دائی حلیمہ دی کُلی وچ رہوندا سی عرش فرش دا دیکھ سنگار بنیا |
فاقے کٹدا تے مٹی تے سون والا بڑے بادشاہاں دا جا سردار بنیا |
اک یتیم ارشاد امی لقب والاہر اک فیصلے دا خود مختار بنیا |
کریں پیروی شیطان دی دن راتیں سوچ رب دے جہنان دا کیا رُتبہ |
تینوں اج وی ملائک پئے یاد کردے اس خاکی انسان دا کیا رُتبہ |
سوچ اس مقام لئ کملیا وے تیرے سازو سامان دا کیا رُتبہ |
قسماں کھاویں تے نالے ایمان ویچیں دس ارشاد قرآن دا کیا رُتبہ |
راہ عشق اُتے جہڑے ٹُر پیندے اپنی منزل توں ہر گز پہجدے نہیں |
تعنے تعمت دے ہار گل پا لیندے چوٹ ہجر دی کھائے بناں سجدے نہیں |
رہندے مست الست ہر حال اندر پلہ منہ تے پا کے کجدے نہیں |
قیدی زلف دے جہڑے ارشاد سائیاں سولی پیار نی چہڑ چہڑ رجدے نہیں |
میرا عشق پکا میرا عشق سچا نعرہ حق دا مارو میں نشے وچ ہاں |
کہلیاں وچ مستی میری کی حستیت ساں آ جاؤ یارو میں نشے وچ ہاں |
وچ نشے نہ ہوش گوا دیواں کھوٹے کھرے نتارو میں نشے وچ ہاں |
چوہاں پنجاں دا خادم ارشاد سائیں حیدر حیدر پکارو میں نشے وچ ہاں |
مُڑ مُڑ ظالماں نوں اے بلال آکھن تساں ہور ستاو میں نشے وچ ہاں |
عشق نبی وچ مست مخمور ہے واں پہاویں جان جلاو میں نشے وچ ہاں |
نامے نبی توں جان قربان میری زرباں کس کس لاوُ میں نشے وچ ہاں |
اسدی ذات دا عاشق ارشاد پکا بیشک سولی چڑھاو میں نشے وچ ہاں |
الیاس عازؔم کی شاعری
موسم سندر سہانا سرور تک کے چاہت وصل دی سجناں کئی بار آئی اے |
چشم نم سنگ عرضاں گزار دتیاں آہ لباں تک کرنے اظہار آئی اے |
ٹٹ جائے نہ ننھی امید کملی حسرت دلے نال کرنے ادھار آئی اے |
کلیاں بدلے لباس الیاس عازؔم توں وی مڑی آ مڑ بہار آئی اے |
درد دل نہ ھوتا گر عشق اندر ظاہر ھوتا پھر کیسے پیار کیا ھے |
کلیاں بن کے پھول نہ بکھر جاتیں ھوتی خزاں کے بعد بہار کیا ھے |
گرد شمع نہ جلتے گر خاک پروانے جانم جانتے کیسے جانثار کیا ھے |
عازؔم جلتے مزاروں پہ دیپ کیسے کیسے جانتا ساقی میخار کیا ھے |
لڑ کھڑا نہ جائیں خیال دل کے کچھ تو بولو کہ دل کو یقیں آئے |
کھولو کوئی تو گرہ پیار کی تم شاید وصل ھی باعث تسکین آئے |
توڑو سوچ پہ پہرے حماقتوں کے کیا خبر کب وائے گل چین آئے |
کب سے رکھی امید اک دید عاؔزم پھر سے یاد وہ چہرے حسین آئے |
نہ تھی فکر اے درد فراق تیری مر جاتے ھم دید سے پہلے پہلے |
نہ یہ ھوتا ملا ل دیوانگی کا سنبھل جاتے مزید سے پہلے پہلے |
تم کیا جانو ھے جلوہء جنون کی سا دیکھے خواب کیا نیند سے پہلے پہلے |
کب سے رکھی امید دید عاؔزم آ جاؤ ساجن تم عید سے پہلے پہلے |
بیٹھے اخگر نشمین دی کرن راکھی تکو کینویں آجاڑیا چمن سارا |
بکھرے پھل تے کلیاں مرجھا گئیاں ملیا خاک وچ غنچہ ء دھن سارا |
کچھ تے خزاں کم بخت جمائے ڈیرے کر گئی زرد ایہہ تن و بدن سارا |
عاؔزم حق نی گل سر عام کرساں اے ظالم لٹ کے کھا گئے وطن سارا |