احوال وآثارحضرت حافظ غلام قادری رحمہ اللہ تعالی:پیش لفظ

احوال وآثارحضرت حافظ غلام قادری رحمہ اللہ تعالی
پیش لفظ

سلسلۂ نبو ت‘آقائے نامدار ﷺ پراختتام پذیرہوا لیکن کارِ نبوت تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔ برکاتِ نبوی ﷺ اور تعلیماتِ نبوی ﷺ کی حفاظت اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے ذمہ ہے لیکن ان کی ترویج وتقسیم کا فریضہ مشائخِ عظام‘ اولیائے کرام اور علمائے حق کی مقدس جماعت کے سپرد ہوا۔ ان نفوسِ قدسیہ نے مثلِ انبیاء بنی اسرائیل علیہم السلام اس کارِ نبوت کی بجا آوری کاحق یوں اداکیا کہ صدیوں کی دوری کے باوجودآج بھی امت کی زبان پر یہ اعترافِ حقیقت جاری ہے۔
رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْايْمَانِ اَنْ آمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا
اے ہمارے پروردگار! بیشک ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا، وہ ایمان کے لئے پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار کے ساتھ ایمان لاؤ‘پس ہم ایمان لائے۔ (آل عمران۔193)
تاریخ کے ادوار میں جب کبھی ظلمت و گمراہی انتہاکو پہنچی تو اس کے مقابلے میں اتنے ہی بلند مرتبہ عالمِ ربانی اور ولی ٔکامل کو نورِنبوت کے انعکاس پر مامور فرمایا گیا۔ سیّدعبدالقادر جیلانی ؒکے زمانہ پر نگاہ ڈالیں تو روا فض کے فرقۂ باطلہ کی تاریکی شق کرنے کے لیۓ یقینا ایسے ہی تابناک سورج کی ضرورت تھی۔برصغیر میں حضرت شیخ احمد سرہندیؒ کے ہاتھوں دین ِ اکبری کا خاتمہ ہوا اور تجدید واحیائے دین کا عظیم فریضہ سرانجام دینے پروہ مجدد الف ثانی ؒکہلائے۔ غرض جب کبھی کفر کی تیرگی حد سے بڑھی‘ اسی قدر صاحب ِ  قوت و تصرف ہستی کے ذریعہ نور ِ نبوت کا تفوّق ظہور میں آیا۔یہی سنتِ الٰہی تاریخ کے تسلسل کے ساتھ ہمیشہ جاری نظر آتی ہے۔ بقول علامہ اقبال ؒ
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ  مصطفویؐ  سے  شرارِ  بو  لہبی
ہر دور میں اہل اللہ کی برگزیدہ جماعت نورِ نبوت ﷺ کی امانت دار اور اس کے فیضان کی امین ہوا کرتی ہےاور خانقاہی نظام ہمیشہ اس نورانی امانت کی ترسیل کا ذریعہ بنتا رہا ہے۔ وقت اور حالات اسی نظامِ تربیت کو نہ صرف زندہ رکھنے بلکہ دین کے اس اہم ترین شعبے،احسان جسے سلف صالحین نے طریقت اور تصوف کے نام سے موسوم کیا،کے احیاء و تجدید کے شدت سے متقاضی تھے، تاکہ عقائد کی اصلاح ہو اور دلوں کی دنیا نورِ ایمان سے آباد ہو سکے۔ اسی کارِ عظیم کے لیے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے جس مردِ حق کو منتخب فرمایا، وہ میرے سیّدی و مرشدی حضرت العلّام مولانا اللہ یار خان نَوَّرَاللہ مَرْقَدَہٗ  تھے۔ حضرت مولانا اللہ یار خان   نَوَّرَاللہ مَرْقَدَہٗ فرمایا کرتے تھے:
”میں سنگریزے جمع کررہاہوں انہی میں سے کچھ ہیرے اور موتی نکلیں گے“۔
آپ کی اس تجدیدی و انقلابی فکر کو لبیک کہنے کی اوّلین سعادت جن خوش نصیبوں کو نصیب ہوئی ان چند گنتی کے افراد میں سے، جنہیں اس تجدیدی کام کے لئے بطور معاونت چنا گیا انہی ہستیوں میں ایک نایاب گوہر،علم و عرفان کا جواہرحضرت حافظ غلام قادریؒ کی ذاتِ گرامی تھی۔
آپ سلسلہ عالیہ کی روحانی میراث کے امین اور رشد و ہدایت کے درخشاں چراغ بنے۔ نہ صرف صاحبِ مجاز قرار پائے بلکہ اجازتِ بیعت و ارشاد اور بارِ خلافت سے بھی سرفراز کیے گئے۔ تصوف کی اصطلاح میں صاحبِ مجاز وہ ہوتا ہے جسے اپنے شیخ کی نیابت و نمائندگی کا شرف حاصل ہو، اور جو شیخ کا قائم مقام بن کر اصلاحِ باطن، تبلیغِ طریقت اور اشاعتِ سلسلہ کی خدمت انجام دے۔ حضرت حافظ غلام قادریؒ کو نہ صرف صاحب مجاز بنایا گیا بلکہ اپنے مرشدِ کامل حضرت مولانا اللہ یار خان نور اللہ مرقدہ کی طرف سے بیعت، اجازت اور خلافت کی کامل و معتبر سند عطا ہوئی تھی۔
یہ خلافت دراصل ایک امانت تھی جس کے ذریعے آپ نے دورِ حاضر میں خانقاہی نظام کے فیوض کو عام کیا۔ آپ نے ذکر و اذکار کی محافل کو زندہ کیا،اصلاحِ قلوب کی فضا پیدا کی اور تصوف کی اصل روح ،یعنی اخلاص، احسان اور قربِ الٰہی کو سینوں میں اتارا۔ آپ کی صحبت سے بے شمار طالبانِ حق نے نہ صرف گمراہی کے اندھیروں سے نجات پائی بلکہ دینِ اسلام کے فکری اور عملی پہلوؤں میں نئی جان پیدا کی۔ یوں آپ کی ذات، حضرت اللہ یار خانؒ کے اس فرمان کی زندہ تفسیر بنی کہ :
”میں سنگریزے جمع کررہاہوں انہی میں سے کچھ ہیرے اور موتی نکلیں گے“۔
یہ بات خاص طور پر لائقِ توجہ ہے کہ اگرچہ حضرت حافظ غلام قادریؒ کو اپنے شیخ ومرشد،مجددِ وقت حضرت مولانا اللہ یار خانؒ کی جانب سے خلافت و اجازت کی کامل سند عطا ہوئی تھی جو نہ صرف روحانی اعتماد کی دلیل بلکہ سلسلہ عالیہ کی تجدیدی ذمہ داریوں کا اعلانیہ امانت نامہ تھی، تاہم آپ نے تمام عمر اس عطائے عظمیٰ کو نہایت خاموشی، انکسار اور فقر کی نورانیت میں چھپائے رکھا۔نہ کبھی خود کو خلیفہ ظاہر کیا، نہ کسی کو اپنی طرف بیعت کے لیے بلایا، بلکہ جو بھی ارادت و بیعت کے ارادے سے حاضر ہوتا، آپ محبت و حکمت سے اسے حضرت مرشدِ گرامی کی بارگاہِ عرفان کی طرف رہنمائی فرما دیتے۔
آپ کی نظر میں  اصل مطلوب ذات کی تلاش تھی، نہ کہ اپنی ذات کی نمائندگی۔یہی طرزِ عمل اربابِ فقر و صفا کی وہ روشن علامت ہے جو اُن کے روحانی کمال کا آئینہ دار بن جاتی ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو حجاب نہیں، ذریعہ بناتے ہیں؛اپنی نسبت کو اظہارِ حال نہیں، سببِ راہنمائی بناتے ہیں؛ اور اپنی نسبت کو فخر کا عنوان نہیں بلکہ مخلوق خدا کی رہنمائی کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔آپ کا یہ انکارِ ذات دراصل اثباتِ حقیقت تھااور یہی وہ جمالِ فقر ہے جو اہلِ نظر کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اہلِ دل کے لیے باعثِ اطمینان بن جاتا ہے۔
آپؒ نے اپنے محبوب و مرشد حضرت مولانا اللہ یار خان نور اللہ مرقدہٗ کے فیضانِ باطن کو اس کامل جذب و انہماک سے اپنے قلب میں جذب کیا کہ وہ فیضان صرف ایک کیفیت نہ رہا بلکہ آپ کی سیرت، کردار، اور طرزِ عمل کا جیتا جاگتا ترجمان بن گیا۔
آپؒ کی روحانی بالیدگی اُسی پاکیزہ صحبت کی مرہونِ منت ہے جہاں ہر لمحہ ایک تجلی،ہر کلمہ ایک درس، اور ہر نگاہ ایک تربیت تھی۔آپؒ نہ صرف اس روحانی وراثت کے امین قرار پائے بلکہ حضرت مولانا اللہ یار خانؒ کے قلزمِ فیوضات سے نکلا وہ بابرکت موتی ثابت ہوئے، جسے حضرت کے منتخب کردہ حاملِ امانتِ روحانی،وارثِ نَفَسِ قدسی ،محرمِ اسرارِ مشائخ، مرشدِ کامل اور وارثِ سلوک و معرفت، قاسمِ فیوضات، حضرت امیر محمد اکرم اعوانؒ کی گہری تربیت، بلند حوصلہ افزائی،اورعارفانہ نگاہِ کرم نے ایسا نکھارا کہ آپ کی شخصیت میں روحانیت ، توازن،حکمت اور سوزِ دروں کا ایسا حسین امتزاج پیدا ہو گیا، جو ہر گام دعوتِ حق کا منبع اور ہر لمحہ نورِ صداقت کی تجلی بن گیا۔
آپ پر یہ اللہ کا خاص فضل و کرم رہا کہ مشائخِ عظام کی ہر نگاہِ عنایت نہ صرف تسلسلِ فیض تھی بلکہ ایک نئی جہت اور ایک نئی بلندی کا زینہ بھی بنی، جس نے آپؒ کی روحانی حیثیت کو مزید مستحکم کیا۔ یوں آپ کی ذات ایک ہمہ جہت مرکزِ روحانیت بن کر عصرِ حاضر میں رشد و ہدایت کا روشن مینار اور قابلِ فخر استعارہ بن گئی۔ اور بھلا ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ کو بارگاہِ نبوی ﷺ کی خاص نمائندگی کا شرف حاصل تھا۔آپ ؒ اکثر فرمایا کرتے تھے
”میں جو کچھ بھی ہوں، یہ سب عطائے یزداں ہے؛ اس میں میری کوئی ذاتی محنت یا کوشش شامل نہیں،سب کچھ اس رب کریم کا فضل ہے، جس کی عطا بے حساب ہے اور جس کی رحمت بے پایاں۔ “
آپؒ کا یہ جملہ نہ صرف انکسار کا مظہر تھا بلکہ اس یقینِ کامل کی آئینہ دار بھی کہ اصل نعمتیں محض فضلِ الٰہی سے حاصل ہوتی ہیں، نہ کہ محض انسانی جدوجہد سے۔ اسی مفہوم کو فارسی کے اس پُرمعنی مصرعے نے کیا خوب سمو دیا ہے

               ؎           تا بہ بخشند، خدائے بخشندہ را
(جب تک عطا نہ کرے، بخشنے والا خدا، کچھ بھی ممکن نہیں۔)
اور قرآنِ کریم کی اس آیت نے گویا ان کے ایمان کی بنیادوں کو مضبوط کر دیا تھا ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآء(یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہے عطا فرماتا ہے۔ المائدہ: 54)
آپؒ کے نزدیک ہر روحانی فیض، ہر قلبی واردات، اور ہر قدم جو راہِ سلوک میں اُٹھا،سب عطا تھا، فضل تھا، وہبی تھا؛ کوئی کسبی کمال نہ تھا۔ اسی تسلیم و رضا، اسی جذبۂ عبدیت،اور اسی خاکساری نے آپ کو مقامِ قرب کی اُن رفعتوں تک پہنچایا جہاں خودی تحلیل ہو جاتی ہے اور باقی فقط رب کی رضا رہ جاتی ہے۔
مولانا احمد علی لاہوریؒ کا مشہور و معروف ارشاد ہے

  ”مخلوق کو خدمت سے رسولِ اکرم ﷺ کو اطاعت سےاور اللہ تعالیٰ کو عبادت سے راضی کر لو۔ “

اس فقرے کی عملی تفسیر اگر کسی نے مجسم صورت میں دیکھی تو وہ حضرت حافظ غلام قادریؒ کی ذاتِ گرامی تھی۔ایسی جامع ہستی جن میں یہ تینوں اوصاف نہ صرف بدرجہ اتم موجود تھے، بلکہ ان کی زندگی انہی انوارِثلاثہ کا روشن مینار تھی۔آپؒ کی شخصیت ایک مستجاب الدعوات، صاحبِ کرامت، مردِ حق تھی، جن کا ظاہر و باطن یکساں نورِ ولایت سے معمور تھا۔ شب بیداری آپؒ کا معمول، تلاوتِ قرآن مجید آپؒ کا ذوق، اور درودِ شریف آپؒ کا سرمایۂ قلب و جاں تھا۔
دعوت، تبلیغ، اور اصلاحِ خلق کا جذبہ یوں دل میں پیوست تھا گویا سانسوں میں گندھا ہوا ہو۔ایامِ ضعف و پیری میں بھی وہ روحانی استقامت اور عبادتی التزام اپنی مثال آپ تھا۔   باوجود ضعف و نقاہت کے، روزانہ ایک منزل کی تلاوتِ قرآن آپؒ کا معمولِ مبارک رہااور یہ سب کسی رسمی یا ظاہری تقویٰ کے تحت نہیں، بلکہ ایک ایسی درویشانہ فکر کے تحت تھا جو ہر آن یہی سوچتی رہی کہ

”میری زبان، میری نظر، میری دعا، میری رہنما کسی بھٹکے ہوئے دل کے لیے ہدایت کا ذریعہ بن جائے۔ “

     پاکستان کا شاید ہی کوئی خطہ، کوئی بستی یا کوئی قریہ ایسا ہو جہاں آپؒ کی روحانی شعاعیں نہ پہنچی ہوں، یا کوئی ایسا دل ہو جسے آپؒ کی دعا، تربیت یا صحبت نے سیراب نہ کیا ہو۔ایسی ہستیاں خود چراغ نہیں ہوتیں بلکہ ان کے دم سے چراغوں میں جان آتی ہے، اور اندھیروں کو راستہ ملتا ہے۔
ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعددریائے اٹک سے لے کر دریائے جہلم تک، جس خطے کو آپؒ کی روحانی نگہبانی اور دعوتی ذمہ داری کے لیے تفویض کیا گیا، وہاں ہر ماہ ہونے والے تبلیغی اسفار، تربیتی مجالس اور اصلاحی محافل، گویا چلتی پھرتی خانقاہیں تھیں، جہاں قلوب صیقل ہوتے، ارواح نکھرتیں اور انسان اپنی اصل پہچان کی طرف لوٹنے لگتا۔ ان سب خدمات کو آپؒ نے نہ صرف باحسن وجوہ نبھایا بلکہ عمرِ رفتہ کی کمزوریوں اور کبرِ سنی کی زنجیروں کو بھی اپنی روحانی طاقت سے توڑ ڈالا۔
آپؒ کی ذات بلاشبہ ایک باکمال، صاحبِ جمال ولیِ کامل کی صورت میں ہمارے درمیان ایک چلتا پھرتا آفتابِ ہدایت تھی۔ ایسے جلیل القدر بزرگ کی سوانح حیات قلمبند کرنا میرے جیسے کم علم، کم مایہ اور خامہ فرسا شخص کے لیے نہ صرف باعثِ حجاب ہے بلکہ سراسر جسارت بھی۔ نہ میں فنِ تحریر کے رموز سے آشنا ہوں، نہ میرے قلم میں وہ طاقت کہ آپؒ کے اخلاقِ حمیدہ، للہیتِ خالصہ، اور دعوت و ارشاد کی ہمہ گیر جہتوں کا احاطہ کر سکے۔
تاہم دل کا ایک گوشہ اس اطمینان سے بھی معمور ہے کہ اگرچہ میرے حرف ناتواں  آپؒ کی عظمت کے سمندر میں ایک قطرے کی حیثیت رکھتے ہیں، مگر ان قطروں میں وہ اخلاص ضرور ہے جو میرے قلبِ عقیدت سے پھوٹا ہے۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے اولیاء اللہ کا تذکرہ فقط ایک انفرادی کوشش نہیں، بلکہ تاریخ کی وہ امانت ہے جسے آئندہ نسلوں تک پہنچانا فرضِ کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ہستیاں جو صرف اپنے وقت کے نہیں ہوتیں بلکہ ہر دور کے لیے مینارِ ہدایت اور مشعلِ راہ ہوتی ہیں۔
یہ سوانحِ مقدس ایک ایسے چراغِ معرفت کی داستان ہے جس نے اپنی روشنی سے کئی قلوب کو منور کیا، کئی زندگیاں بدلیں، کئی بھٹکتے راہیوں کو منزل آشنا کیا۔حضرت حافظ غلام قادریؒ کا وجود یقیناً ان نفوسِ قدسیہ میں سے تھا، جن کی زندگی اللہ کے ذکر سے معطر، رسول ﷺ کی سنت سے مزین، اور بندگانِ خدا کی خدمت سے لبریز ہوتی ہے۔
حضرت حافظ غلام قادریؒ کی ذات گرامی اُن بلند ہستیوں میں سے تھی جنہوں نے اپنی پوری زندگی رضائے الٰہی میں فنا کر دی۔ میری آپؒ سے پہلی ملاقات 2003ء میں اُس وقت ہوئی جب میں نے سلسلہ عالیہ میں بیعت کی اور دارالعرفان منارہ میں ماہانہ اجتماع میں پہلی بار شرکت کی۔
وہ پہلی نظر، پہلا سلام، گویا ایک ایسا تعلق تھا جو صرف ارادت یا شاگردی تک محدود نہ رہا بلکہ ایک قلبی وابستگی میں ڈھل گیا،ایک ایسا روحانی رشتہ جس کی جڑیں وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی گہری ہوتی چلی گئیں۔الحمدللہ، یہ نسبت صرف حیاتِ دنیوی تک محدود نہ رہی بلکہ آج، جب آپؒ کا ظاہری وصال ہو چکا ہے، یہ تعلق پہلے سے زیادہ روشن اور مستحکم ہو چکا ہے۔ مجھے یقینِ کامل ہے کہ یہی نسبت روزِ حشر بھی میرے لیے وسیلۂ نجات بنے گی، ان شاء اللہ۔
یہ کتاب، جو آپؒ کی زندگی ہی میں بڑی حد تک مکمل ہو چکی تھی، آپ نے نہ صرف بغور ملاحظہ فرمائی بلکہ کئی مقامات پر اصلاحات بھی عطا فرمائیں۔ میری یہ شدید خواہش تھی کہ یہ خالصتاً روحانی سوانح آپؒ کی حیاتِ مبارکہ میں منظرِ عام پر آتی، مگر تقدیر کو کچھ اور منظور تھا۔ یہ تحریر صرف روایتی سوانح نہیں بلکہ ایک سلوک و معرفت کی راہ پر چلنے والے سالک کی رہنمائی، تربیت، اور بصیرت کا آئینہ بھی ہے۔ میں نے کسی بات کو صرف سنی سنائی روایت کی بنیاد پر نہیں لکھا بلکہ تحقیق و تصدیق کے بعد ہر جملہ رقم کیا، تاکہ یہ کتاب نہ صرف ایک ولیٔ کامل کی زندگی کا احاطہ کرے، بلکہ سالکین کے لیے ایک عملی رہنمائی کا مینار بھی بن جائے۔ یہ خاکسار، بس اس نیت کے ساتھ یہ خدمت انجام دے رہا ہے کہ شاید اس نسبت کے طفیل میرا نام بھی ان لوگوں میں لکھا جائے جنہوں نے اللہ کے محبوب بندوں کا تذکرہ کیا، اُن کی تعلیمات کو عام کیا اور ان کے ذکر سے اپنے دل و دماغ کو روشن کیا۔

                                                                                                                                                                                                        والسلام مع الاکرام
ابن محمد جی قریشی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top