ایک نابینا مینڈکو پالنے والی خاتون اور سائنسی تحقیق

1992 میں کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو (Ontario, Canada) میں پیش آنے والا ایک غیر معمولی واقعہ آج بھی حیاتیاتی سائنس (Biological Science)، سائنسی تحقیق (Scientific Research) اور انسانی ہمدردی (Human Compassion) کے لیے ایک اہم حوالہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک ہائی اسکول کی طالبہ ڈیڈری (Deidre) نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مینڈک دیکھا جو بظاہر عام تھا، مگر درحقیقت یہ مینڈکوں میں عجیب پیدائشی نقائص (Frog Birth Defects) اور پیدائشی بگاڑ (Congenital Deformities) کی ایک نایاب مثال تھا۔
جب ڈیڈری نے اس مینڈک کو اٹھایا تو اسے فوراً احساس ہوا کہ کچھ غیر معمولی (Abnormal) ہے کیونکہ وہ اپنی آنکھیں نہیں کھول رہا تھا۔ تجسس (Curiosity) اور تشویش (Concern) کے عالم میں جب اس نے اس کے منہ کے اندر جھانکا تو اسے ایک نایاب قدرتی مظہر (Rare Natural Phenomenon) نظر آیا—مینڈک کے منہ کی چھت (Palate) پر آنکھوں کا مکمل جوڑا موجود تھا جو الٹی سمت (Inverted Orientation) میں بنا ہوا تھا۔
ابتدائی طور پر اسے گمان ہوا کہ شاید مینڈک نے کسی دوسرے مینڈک کو نگل لیا ہے، مگر جلد ہی یہ واضح ہو گیا کہ یہ آنکھیں اسی کے جسمانی ڈھانچے (Anatomical Structure) کا حصہ تھیں۔ یہ شدید پیدائشی خرابی (Severe Congenital Defect) تھی جو امفیبیئنز میں نقائص (Amphibian Abnormalities) کے زمرے میں آتی ہے اور جس نے اس مینڈک کی بینائی (Vision) کو تقریباً ختم کر دیا تھا۔
ڈیڈری اس مینڈک کو گھر لے آئی اور اسے کیچوے (Earthworms) کھلانے کی کوشش کی۔ وہ صرف اسی وقت خوراک قبول کرتا جب غذا براہِ راست اس کے منہ میں رکھی جاتی۔ تقریباً نابینا ہونے کے باوجود، یہ مینڈک قدرتی آزمائش (Natural Survival Test) کے تحت خاموشی سے زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہا تھا، جو قدرت اور سائنس کے تعلق (Nature and Science Relationship) کی ایک دردناک مثال بن گیا۔
ڈیڈری نے اس غیر معمولی دریافت کے بارے میں مقامی اخبار (Local Newspaper) سے رابطہ کیا۔ صحافی اور فوٹوگرافر اسکاٹ گارڈنر (Scott Gardner) نے ابتدا میں اسے مذاق سمجھا، مگر موقع پر پہنچ کر اس کے سامنے ایک ناقابلِ تردید حقیقت (Undeniable Reality) موجود تھی۔ فوٹوگرافی (Photography) کے دوران مینڈک کے منہ کے اندر موجود آنکھوں کو محفوظ کرنے کے لیے کیڑوں کی مدد لی گئی، تاکہ اس نایاب حیاتیاتی کیس (Rare Biological Anomaly) کو دستاویزی شکل دی جا سکے۔
اسی دوران ڈیڈری نے اس مینڈک کا نام “گولم” (Gollum) رکھ دیا، جو جے آر آر ٹولکین (J.R.R. Tolkien) کے ناول لارڈ آف دی رنگز (Lord of the Rings) کے اس کردار سے ماخوذ تھا جو تنہائی (Isolation)، اذیت (Suffering) اور بقا (Survival) کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
اگلے دن ڈیڈری، گولم کو یونیورسٹی آف گوئلف (University of Guelph) لے گئی جہاں ماہرِ حیاتیات پروفیسر بوگارٹ (Professor Bogart) نے اس کا تفصیلی معائنہ (Detailed Examination) کیا۔ وہ برسوں سے مینڈکوں میں پیدائشی بے قاعدگیوں (Developmental Abnormalities) اور حیاتیاتی ارتقاء (Biological Development) پر تحقیق کر رہے تھے، مگر ایسا کیس انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ان کے سائنسی نوٹس (Scientific Documentation) کے مطابق: نر (Male)، Bufo americanus، لمبائی دو انچ (Two Inches)، عمر کم از کم دو سال (Minimum Two Years)۔
سب سے حیران کن سوال یہ تھا کہ شدید بصری کمزوری (Severe Visual Impairment) کے باوجود یہ مینڈک جنگلی ماحول (Wild Environment) میں اتنے عرصے تک کیسے زندہ رہا۔ وجہ کے حوالے سے کوئی حتمی نتیجہ (Definitive Conclusion) سامنے نہ آ سکا۔ پروفیسر بوگارٹ کے مطابق یہ حالت جینیاتی تغیر (Genetic Mutation) کا نتیجہ بھی ہو سکتی تھی اور ماحولیاتی آلودگی (Environmental Pollution) یا ماحولیاتی زہر (Environmental Toxins) کے حیاتیاتی اثرات (Biological Effects) بھی اس میں شامل ہو سکتے تھے۔
انہوں نے گولم کو افزائشِ نسل (Breeding Study) کے ذریعے سائنسی تحقیق میں شامل کرنے کی تجویز دی تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ آیا یہ صفت موروثی (Hereditary Trait) ہے یا نہیں، مگر ڈیڈری نے سائنسی اخلاقیات (Scientific Ethics) اور جانوروں کے حقوق (Animal Rights) کی بنیاد پر اس سے انکار کر دیا۔ حتیٰ کہ گولم کی موت کے بعد بھی اس نے پوسٹ مارٹم (Post-Mortem Examination) کی اجازت نہ دی۔ اس کے نزدیک گولم کوئی تجرباتی نمونہ (Experimental Specimen) نہیں بلکہ انسان اور فطرت (Human and Nature) کے تعلق کی ایک خاموش مگر طاقتور کہانی تھا۔
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ فطرت صرف حسن (Beauty) کا نام نہیں بلکہ آزمائش (Trial)، تکلیف (Pain) اور حیرت (Wonder) کا مجموعہ بھی ہے، اور بعض اوقات سب سے کمزور مخلوق (Weakest Creature) ہی سائنس، انسانیت اور ضمیر کو سب سے مضبوط پیغام (Strongest Message) دے جاتی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top