پندرہ برس کے تجربے میں بعض واقعات محض یادداشت کا حصہ نہیں بنتے بلکہ دل کے کسی گوشے میں مستقل رہائش اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ بھی ایسا ہی واقعہ تھا۔ ایک خاموش رات، دفتر تقریباً خالی، شہر معمول کے مطابق روشن مگر دل کسی انجانی تشویش میں مبتلا۔ استقبالیہ سے اطلاع آئی کہ ایک میاں بیوی اکیلے میں ملنا چاہتے ہیں۔ لہجے کی سنجیدگی نے مجھے فوراً چونکا دیا۔ ایسی درخواستیں عام نہیں ہوتیں اور جب ہوتی ہیں تو اکثر اپنے ساتھ کوئی بھاری سچ لے کر آتی ہیں۔وہ دونوں میرے سامنے بیٹھے تھے۔ لباس میں سادگی، انداز میں وقار اور آنکھوں میں وہ تھکن جو صرف وقت یا گہرا دکھ چھوڑ جاتا ہے۔ اگر کوئی اجنبی انہیں دیکھتا تو یہی سمجھتا کہ یہ ایک مطمئن اور کامیاب جوڑا ہے، مگر میں جانتی تھی کہ اصل کہانیاں اکثر خاموش نظروں میں لکھی ہوتی ہیں۔ چند رسمی جملوں کے بعد کمرے میں ایسی خاموشی چھا گئی جو بولتی نہیں مگر دل پر دستک دیتی ہے۔ پھر مرد نے دھیمی آواز میں کہا کہ وہ اپنی بیوی کے لیے رشتہ تلاش کرنا چاہتا ہے۔ یہ جملہ میرے لیے وقت کو منجمد کر دینے کے مترادف تھا۔ میں نے بے اختیار پوچھا کہ کیا وہ مذاق کر رہے ہیں، مگر جواب میں صرف ایک طویل سانس آئی، اور ماضی کا دروازہ کھل گیا۔سولہ برس پہلے انہوں نے محبت کی شادی کی تھی۔ ابتدا میں اعتراضات ہوئے، ناراضگیاں بھی رہیں، مگر وقت نے سب کچھ ہموار کر دیا۔ وہ ہنستے تھے، ایک دوسرے کے لیے جیتے تھے، چھوٹی خوشیوں میں بڑی مسرت تلاش کر لیتے تھے۔ اللہ نے انہیں تین بچوں سے نوازا، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا، اور گھر واقعی گھر تھا، جہاں قہقہے اور دعائیں ایک ساتھ پلتی تھیں۔ زندگی میں کمی بہت کچھ تھا مگر شکایت نہ تھی، بس ساتھ تھا، جو ہر کمی پوری کر دیتا ہے۔
پھر ایک دن کوئی بڑا حادثہ نہیں ہوا، نہ کوئی ناقابلِ معافی جرم سرزد ہوا۔ صرف ایک غلط فہمی تھی، ایک لمحاتی غصہ، اور وہ تین الفاظ جو زبان سے نکل کر قسمت کا رخ بدل دیتے ہیں۔ عورت زمین پر بیٹھ گئی، ہاتھ جوڑے، روئی، گڑگڑائی، مگر شریعت کے فیصلے آنسو نہیں دیکھتے۔ اگلے دن مرد ہر دروازے پر گیا، علماء سے ملا، فتوے سنے، ہر امید کو مضبوطی سے تھاما، مگر ہر راستہ ایک ہی دیوار پر جا کر ختم ہو گیا۔ اسی شام اس نے بیوی کو بچوں سمیت اس کی بہن کے گھر چھوڑ دیا۔ سولہ سال کا ساتھ ایک دن میں ماضی بن گیا۔
دو سال گزر گئے مگر وقت کے ساتھ زخم نہیں بھرے، صرف گہرے ہوتے چلے گئے۔ بچے کبھی ماں کو یاد کر کے روتے، کبھی باپ کے سینے سے لپٹ جاتے۔ مرد نے خود کو کام میں جھونک دیا اور عورت نے خاموشی کو اوڑھ لیا۔ دونوں زندہ تھے مگر جینے کی خواہش کہیں کھو چکی تھی۔ کچھ لوگوں نے حلالہ کا ذکر کیا، مگر وہ لفظ دونوں کے لیے روح کو زخمی کر دینے کے مترادف تھا۔ ایک عورت کے لیے یہ سوچ بھی ناقابلِ برداشت تھی اور ایک مرد کے لیے بے بسی کی انتہا۔
پھر بیماری نے دستک دی۔ بیٹی تیز بخار میں جل رہی تھی، کبھی ماں کو پکارتی، کبھی باپ کو۔ اس لمحے مرد کا ضبط ٹوٹ گیا۔ وہ بچی کو ماں کے پاس چھوڑ آیا۔ برسوں بعد وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے، نظریں جھکی ہوئیں، آنکھوں سے آنسو بہتے ہوئے۔ دوبارہ بات ہوئی، دوبارہ وہی سوال کہ کیا واقعی کوئی راستہ نہیں، اور دل پر پتھر رکھ کر اس راستے پر سوچا گیا جو دل کو سب سے زیادہ زخمی کرتا ہے۔
جب وہ اپنی کہانی سنا چکے تو کمرے میں خاموشی تھی، مگر وہ خاموشی چیخ رہی تھی۔ میں نے اس رات کوئی فتویٰ نہیں دیا، کوئی راستہ تجویز نہیں کیا، بس اتنا کہا کہ کبھی کبھی انسان حل نہیں، صرف صبر سیکھنے آتا ہے۔ وہ چلے گئے، مگر کہانی میرے ساتھ رہ گئی۔ اس رات نیند مجھ سے روٹھ گئی۔ میں سوچتی رہی کہ اگر غصہ ذرا تھم جاتا، اگر زبان رک جاتی، تو شاید تین بچے آج بھی ایک ہی چھت کے نیچے ہنستے۔
یہ کہانی کسی ایک گھر کی نہیں، یہ ہر اس انسان کے لیے ہے جو فیصلہ کرنے سے پہلے ٹھہرنا بھول جاتا ہے۔ کیونکہ جذبات میں لیے گئے فیصلے لمحوں میں ہوتے ہیں، مگر ان کی قیمت پوری زندگی مانگتی ہے، اور اس قیمت کا سب سے بھاری بوجھ ہمیشہ بچوں کے نازک کندھوں پر آتا ہے۔

