پوٹھوہار نامہ

پاکستان کے آثار قدیمہ : راجا محمد عارف منہاس

پاکستان کے آثارِ قدیمہ | Asar-e Qadeema-e Pakistan

اجہ محمد عارف منہاس اس کتاب کے متعلق خود لکھتے ہیں:

میں اللہ عزوجل کا دل کی گہرائیوں سے سپاس گزار ہوں کہ اس نے اپنے حبیب کے صدقے مجھے ہمت اور حوصلہ عطا فرمایا کہ آثار و باقیات کی تحقیق و تحریر کا کٹھن کام جو میں نے ۱۹۵۰ء کے اوائیل میں شروع کیا تھا منتالیس سال بعد آج اپنے تکمیل کو پہنچا سکا۔ اس میں میری محنت کو ذرا بھر بھی دخل نہیں یہ سراسر قادر مطلق کے بے انتہا فضل اور بے پایاں احسان کا نتیجہ ہے میں اس ذات پاک کا جس قدر شکر بجالاؤں کم ہے میں جب بسلسلہ تعلیم لاہور گیا تو سب سے پہلے جس تاریخی عمارت یا مزار کو دیکھا وہ اسلام کے بطل جلیل اور ہندوپاک کے پہلے مسلم تاجدار قطب الدین ایبک کا ایک تنگ و تاریک گلی میں انتہائی خستہ حال مزار تھا۔ مزار کیا بلکہ ایک معمولی کی قبر تھی جس کے اوپر اور دائیں بائیں مکانات بنے ہوئے تھے جابجا گندگی کے ڈھیر لگے تھے۔ قبر کی بے حرمتی اور کسمپری پر انتہائی دکھ ہوا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ سکھ عہدے پہلے یہاں عالی شان مقبرہ تھا جس کو رانی جنداں نے مسمار کرا کے یہ جگہ اپنے ایک ہندو رشتہ دار منوہر لال کو بخش دی اور اس متعصب ہندو نے مقبرہ کا ملبہ اٹھوا کر اپنا اور اپنے رشتہ داروں کے مکانات تعمیر کر دیئے کالج کے ہوسٹل میں واپس آکر اپنے چند ہم جماعتوں سے مشورہ کیا تفصیلی بحث کے بعد بزم ایک کی بنیاد رکھی علمی و ادبی شخصیات کے علاوہ اعلیٰ عہدوں پر فائز صاحباں سے ملاقاتیں کیں۔ جناب عبدالرب نشتر جناب ایس ایم شریف اس وقت کے ڈی پی آئی پنجاب) اور مولانا ظفر علی خان (مدیر اعلی روزنامہ زمیندار نے ہماری پوری پوری معاونت اور سرپرستی کی بزم ایک کے صدر جناب شیر محمد شگفتہ اور نائب صدر جناب منیر احمد چغتائی نے گراں قدر خدامات انجام دیں۔ میں نے اور بعد میں ان دو حضرات نے طویل جدوجہد اور مذاکرات کے بعد مزار کے گرد تمام مکانات گرانے اور مقبرہ کی تعمیر نو کی اجازت حاصل کر لی آج جو مقبرہ ہمیں نظر آرہا ہے وہ مذکورہ شخصیات کی کاوش کا ثمر ہے۔ اس ابتدائی کامیابی جو مجھے خالقا” اللہ پاک کے حکم اور کرم سے حاصل ہوئی نے میرے اندر نیا جذبہ پیدا کیا اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں تمام آثار و باقیات کا ذاتی طور پر مشاہدہ کروں اور پھر اپنی تحقیق اور مشاہدہ کی روشنی میں اسکو کتابی شکل ہوں۔ میں نے اس ضمن میں پشاور سے کراچی و کوئٹہ تک سکوٹر پر سفر کیا اور جہاں سکون نہ جا سکا وہاں اونٹ گھوڑا گدھا اور پاؤں سے کام لیا ہر قدیم جگہ کا ذاتی طور پر مشاہدہ کیا مقامی لوگوں سے حالات معلوم کئے اور اگر کسی جگہ کے متعلق کوئی تحریری مواد مل سکا تو س سے بھی استفادہ کیا۔ اگر فی الواقع میری یہ حقیر پیش کش لوگوں کے لئے پاکستان کے آثار سے متعلق کچھ بھی مدد گار ثابت ہوئی ہے تو یہ میری بہت خوش نصیبی ہو گی یہ میری کوشش ہے اب اس امر کا فیصلہ عام ناظرین ہی کر سکتے ہیں کہ میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں بہر نوع یہ حرف آخر نہیں ہر ناظر اور خاص کر ماہرین آثار قدیمہ سے استدعا ہے کہ جہاں کوئی تشکلی محسوس کریں یا کسی سوال کا جواب درکار ہو یا مدعا اچھی طرح واضح نہ ہو رہا ہو تو اس سے مجھے مطلع کریں تاکہ میں اپنی اصلاح کر سکوں جس بات کا نغلط ہونا دلیل سے مجھ پر واضح کر دیا جائے گا انشاء اللہ اسکی اصلاح کرونگا ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ آثار قدیمہ کی اپنی کوئی زبان نہیں ہوتی وہ زبان قال کی بجائے زبان حال سے اپنے دور کی تاریخ بیان کرتے ہیں اور اس معاملے میں اہل قلم کے محتاج ہوتے ہیں یہ ایک خاموش تاریخی ذخیرہ ہے جس پر تنقیدہ تو کی جا سکتی ہے مگر اصلاح کرتا ذرا مشکل ہے۔ تاریخ اور خاص کر آثار قدیمہ ایک نہایت وسیع مضمون ہے جو ہمیں انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ماضی کا آئینہ دکھا کر ہماری معلومات میں اضافہ کرتا ہے انسان ہمیشہ اپنے دوش کے رشته دار آئینے میں فردا کو دیکھنے کا خواہاں رہتا ہے وہ چشم بر عمد کہن اسلئے رہتا ہے تاکہ وہ اپنے ماضی کے نقوش میں اپنے مستقبل کی تلاش کر سکے اس کی فطرت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے ماضی کو اپنے مستقبل کا مفسر سمجھ کر اسے ہمیشہ سینے سے لگائے رکھے انسان کا ماضی ہی اس کے لئے ایک ایسی تجربہ گاہ ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ درس عبرت حاصل کر کے اپنے حال و استقبال کی عمارت استوار کرتا رہتا ہے ایک تاریخ نویس اور ایک ادیب یا شاعر میں بڑا فرق ہے تاریخ یا مورخ واقعات کو من و عن بیان کر دیتا ہے جبکہ شاعر یا ادیب ان میں تخیل کے رنگ بھرتا ہے دونوں کا کام اپنی اپنی جگہ اہم ہے ۔ تاریخ نویس یا مورخ کے لئے ضروری ہے کہ اسکی تحریر میں ذاتی رجحانات اور تعصب کے عناصر نہ ہوں بلکہ وہ واقعات کو جوں کا توں بیان کر دے اور ان کا نتیجہ قاری پر چھوڑے اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ ایک اچھا مورخ نہیں قرار دیا جا سکتا آثار قدیمہ کا مورخ میری نظر میں خاموش تماشائی ہوتا ہے اس کا کام اس لحاظ سے کٹھن ہوتا ہے کہ اسے واقعات کو انکی اصلی شکل یا رنگ میں بیان کرنا ہوتا ہے تاریخ نویس اگر کوئی واقعہ درج کرتا ہے تو دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ آیا اس نے وہ واقعہ بچشم خود دیکھا ہے اور اس نے مشاہدہ خود کیا ہے یا محض سنی سنائی باتوں کو درج کر دیا ہے اور خود دیکھا ہے تو اس کا انحصار اس کی حسی قوت یعنی قوت مشاہدہ پر بھی کہ وہ ایک واقعہ کسی انداز کس پہلو اور کسی نسنج سے دیکھتا ہے اور اسے کسی رنگ میں پیش کرتا ہے اور اس میں اس کے دلی جذبات اس کے ذاتی رجحانات اور تعصب کے عناصر در آئیں تو اس کے بیان کردہ واقعہ کی صحت شک کی نذر ہو جاتی ہے۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو میں نے سراسر ایک مورخ اور تاریخ نویس کے طور پر پوری کتاب اور اس کے ہر آثار کو سپرد قلم کیا ہے میں نے ذاتی رجحانات اور تعصب سے دور رہنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے میں نے رب العزت کے حکم اور اس کے بے پناہ کرم کے تحت اپنی ہمت اور استطاعت اور بلند پایه و مستند تاریخی کتب کی ورق گردانی کر کے اس کتاب کو مرتب کیا ہے اب یہ دیکھنا قارئین کرام کا کام ہے کہ میں اپنی محنت اور کاوش میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں۔ آخر میں ایک بار پھر میں حاکم الحاکمین کا صدق دل سے ممنون احسان ہوں جس نے مجھ پر اپنے حبیب کے صدقے اتنا بڑا فضل اور احسان کیا۔ اگر میں نے کوئی نادانستہ غلطی کی یا حالات کو صحیح طور پر پیش نہ کر سکا تو اس کے لئے معذرت خواہ ہوں

راجا محمد عارف منہاس

سکیم 3 چک لالہ راولپنڈی

یکم جنوری سن ۱۹۹۷ء

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top