پوٹھوہار نامہ

پوٹھوہار کے آثار قدیمہ : راجا محمد عارف منہاس

پوٹھوہار کے آثار قدیمہ

راجہ عارف منہاس “پوٹھوہار میں آثار قدیمہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ
کہانیوں سے دلچسپی بچوں کا ایک فطری جذبہ ہے اور میرے اندر یہ جذبہ جنون کی بعد تاب کار فرما تھا۔ اپنے بزرگوں سے کہانی سننے کے انتظار میں رات گئے دیر تک جاگنا میرا روزمرہ کا معمول تھا۔ دیگر روائتی کہانیوں کے علاوہ میری نانی جان مجھے راجہ رسالو، سات دیووں اور ان کی ایک بہن سے متعلق بھی ایک کہانی نایا کرتی تھیں کہ کس طرح راجہ رسالو نے سات دیووں اور ان کی بہن کو قتل کر کے سارے علاقے کو ان کے مظالم سے نجات دلائی اور پھر اس خوشی میں ایک سٹوپ تعمیر کرایا۔ یہ سٹوپ میرے گاؤں سے ایک میل کے فاصلے پر ہے۔ ابھی میں چھ سات سال ہی کا تھا کہ میں نے اپنے شوق کی تکمیل کے لئے اس کا بغور جائزہ لیا لیکن جونہی ذرا ہوش سنبھالا میرے فکر اور تحقیق نے ان دیو مالائی کہانیوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور پھر میں نے از سر نو مذکورہ سٹوپ جو توپ مانکیالہ کے نام سے مشہور ہے کی تعمیر کی اصل وجہ کا کھوج لگانا شروع کر دیا ۔ اسی جذبہ تجس نے مجھے تاریخ کی تحقیق پر ابھارا اور بالاخر مجھے تاریخ میں ایم اے کرنے پر راغب کیا۔
راقم الحروف نے کالج کے زمانے تک، پاکستان کے تمام آثار قدیمہ کی سیر کی لیکن جہاں بھی گیا۔ مجھے اس تاریخی عمارت کے متعلق صحیح اور معتبر شواہد حاصل نہ ہو سکے۔ علاقہ کے ہر فرد نے اپنے علم کے مطابق مختلف وجوہ  بیان نہیں۔ اندریں حالات میں نے پوٹھوار کے جملہ آثار قدیمہ کی تحقیق شروع کردی – ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۳ء تک میرے مضامین جو آثار قدیمہ سے متعلق تھے تعمیر کوہستان نقوش اور باد شمال میں شائع ہوتے رہے۔ پھر چیند گھر لو مجبوریوں کے تحت مجھے سلسلہ اشاعت منقطع کرنا پڑا۔ ابھی سمجھلے سال ہی کا ذکر ہے کہ اخبارات میں شہاب الدین محمد غوری کی آخری آرام گاہ کے متعلق کئی مضامین شائع ہوئے لیکن مضامین میں مطابقت نہ بھی ہی دوران میں نے بھی بحیثیت تاریخ دان شہاب الدین محمد غوری کی آخری آرامگاه سے متعلق تحقیق کی۔ اور ساتھ ہی یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر شہاب الدین محمد غوری کی آخری آرام گاہ کے متعلق محققین میں اس قدر اختلاف رائے ہے تو پوٹھوہار کے دیگر آثار قدیمہ کے متعلق بھی روایات میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ کیوں نہ پوٹھوہار کے جملہ آثار قدیمہ کی تحقیق کی جائے۔چنانچہ میں نے حملہ آثار قدیمہ کا بالاستیعاب جائزہ لیا اور مستند تاریخی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد حملہ آثار قدیمہ کے اصل حالات منصہ شہود پر لائے ۔ اس طرح پیش نظر کتاب پوٹھوار کے آثار قدیمہ کی تالیف کا اصل سبب شہاب الدین محمد غوری کے مزار کی تحقیق بنا ۔ تاریخی کتب جن سے استفادہ کیا گیا.اس سرزمین پو ٹھو ہا ر از کرم حیدری ۲- تاریخ پاک و ہند از پروفیر شمس الدین تاریخ پاک و ہند از رفیع اللہ خان والیس عبد الرسول مهم خلافت اسلامیہ حصہ اول از خواجه عباد الله اختر برصغیر پاک و ہند میں کمپنی کی حکومت حصہ اول از تعلیمی ادارہ اردو بازار لاہور 4- بوستان قلندری ملکیت عبد الرحمن چکڑالی بدھال ہے۔ معلمی نسخه از راحبه رحیم دادخان مرحوم ساگری ای نسخه قاضی غلام غوث آن چکڑالی بدھال ۔ لمحفوظات صاحبزادہ پیر ولایت حسین صاحب سجادہ نشین چکڑالی مبدل تاریخ الکامل از ابن اثیر تاریخ ابن خلدون حصد شیشم – منہاج سراج کی طبقات ناصری – محمد قاسم فرش تند کی تاریخ فرشته ، تذکرہ بہادر ان اسلام راج ترنگی از کلہانہ اور دوسری بہت سی مستند کتابوں اور اخباری تراشوں سے بھی استفادہ کیا ۔
اس کتاب کی تیاری میں جناب سعید احمد وارثی سیکنڈ ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول ساگری کے میری بڑی حوصلہ افزائی اور معاونت فرمائی وہ میرے ساتھ مختلف تاریخی مقامات دیکھنے گئے۔ کتاب ندا کی تدوین میں ان کا بڑا ہاتھ ہے علاوہ ازیں قاضی محمد نذر الحسن صاحب فارسی فاضل اور غلام رسول صاحب اوردر فاضل نے کتابت کے سلسلے میں میری بڑی معاونت فرمائی ہیں ان تینوں حضرات کے پر خلوص تعاون کا ممنون ہوں ۔
آخر میں قارئین سے گزارش ہے کہ چونکہ یہ میری پہلی تصنیف سے اس لئے اس میں کئی کو تا ہیاں ممکن ہو سکتی ہیں۔ لہذا اگر آپ کسی جگہ اصلاح فرمانا چاہیں تو آئندہ شمارے میں انہیں شامل کرنے میں نجز محسوس کروں گا۔

محمد عارف۲۱  مارچ   ۶۱۹۷۷  ساگری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top