پوٹھوہار نامہ

چکله پُل راولپنڈی

 چکله پُل راولپنڈیپہلی جنگ عظیم کے دوران راولپنڈی میں دفاعی ضروریات کے پیش نظر دو ڈویژن فوج تعینات کی گئی جس کی وجہ سے اپریل 1915 میں نرنکاری بازار والے چکلے میں فوجیوں اور دلالوں میں لڑائی ہو گئی فوجیوں نے دلالوں کومار مار کر بھگا دیا۔ تاریخ راولپنڈی و پاکستان از محمد عارف راجہ میں لکھا ہے کہ جب چکلے میں آئے روز لڑائیاں معمول بن گئیں تو مولوی عبدالحق نے ہندو اور سکھ برادریوں کے رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا اور چکلہ ختم کرانے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی خواہش کا اظہار کیا، مگر انہوں نے سرد مہری دکھائی جس کی وجہ سے مسلمان رہنماؤں پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی جو 1920 سے 1927 تک جدوجہد کرتی رہی۔مقامی انتظامیہ کا موقف تھا کہ راولپنڈی کا چکلہ بند کرنے کا مطلب پورے ہندوستان کے چکلے بند کرنا ہے اس لیے یہ مقامی انتظامیہ کی بجائے وائسرائے کا دائرہ اختیار ہے۔ دوسرا اگر یہ قحبہ خانہ بند کر دیا گیا تو انگریز فوج گھروں میں داخل ہو کر شہر کا امن تباہ کر دے گی۔اس کمیٹی کی قیادت ایک جوشیلے رکن منشی قائم دین کے پاس تھی لہٰذا ایک ہندو دلال کے ہاتھوں انہیں قتل کرا دیا گیا۔ مسلمانوں نے الزام لگایا کہ یہ سب کچھ پولیس کی آشیر باد سے ہوا ہے اس لیے مسلمانوں نے مشتعل ہو کر نرنکاری بازار والے چکلے پر حملہ کر دیا اور جس ہندو دلال پر قتل کا الزام تھا اسے مار دیا اور طوائفوں پر تشدد کیا جس کی وجہ سے وہ دوسرے شہروں میں منتقل ہو گئیں۔شدید احتجاج اور تصادم کی وجہ سے انتظامیہ نے چکلہ رتہ امرال میں بلیاں والی سرائے میں منتقل کر دیا گیا۔ اسی نسبت سے یہاں واقع پل کو آج بھی چکلہ پل کہا جاتا ہے۔ رتہ امرال بھی ایک سکھ رتہ سنگھ کے نام سے موسوم ہے۔ اس زمانے میں طوائفوں کو جسم فروشی کے لائسنس پولیس کی جانب سے جاری کیے جاتے تھے۔ ’راولپنڈی سے راولپنڈی تک‘ کے مصنف حافظ عبد الرشید لکھتے ہیں کہ ’راجہ بازار میں کھلے چکلے موجود تھے۔ ایک نرنکاری بازار میں جہاں چونی میل رنڈیاں آنکھوں میں موٹا سرمہ ڈالے، ہونٹوں اور دانتوں پر دنداسہ کے سرخ اور سیاہ نشان، بالوں میں گھنا سرسوں کا تیل، طاقچے پر لیمپ کے سامنے کرسی بچھائے ہوئے ہر راہ گزر کو ’آؤ نا آؤ جی‘ کہتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں اور اس طرح قصائی گلی میں گانے والی رنڈیاں سرشام ہی سارنگی اور طبلہ کے ساتھ تانیں اڑاتی تھیں۔‘نرنکاری بازار اور رتہ امرال والے چکلوں کا ذکر اب تاریخ کی ایک آدھ کتاب میں ہی ملتا ہے حوالہ: راول راج مصنف: سجاد اظہر تاریخ راولپنڈی 

1 thought on “چکله پُل راولپنڈی”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top