شہید بی بی کی داستان حیات اور میری جہدو جہد اور مولانا فضل الرحمن

علماء کو سیاسی جماعتیں اپنے جلسوں میں بلا کر کیسے استعمال کرتی ہیں اسکا اندازہ اسلم گورادسپوری کی کتاب “شہید بی بی کی داستان حیات اور میری جہدو جہد” میں مولانا فضل الرحمن کے متعلق جو لکھا گیا ہے اس سے ہوتا ہے موصوف لکھتے ہیں
ملک قاسم کے بعد مولانا فضل الرحمن کو مجھے بلانا تھا۔ میں مولانا کو ان کے مزاج کے مطابق ان کے مذہبی تصور کے مطابق ہی اکسا کر ان سے اشتعال انگیز تقریر کروانا چاہتا تھا۔ اردو زبان کے محاورے اور شاعری ان کے مولوی جتنے پر زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکتے تھے۔ اس لئے کہ مولوی ہمیشہ آیت سے ہی مارتا ہے اور آیت سے ہی مرتا ہے۔ میں نے مولوی پر تاریخ اسلام کے ایک
عظیم حوالے سےوار کیا جس سے مولوی کے چھکے چھوٹ گئے ۔ مولوی اندر سے ضیاء الحق کے ساتھ میلان رکھتا تھا۔ ہر فیصلہ کے لئے عین وقت پر جل دے جایا کرتا تھا۔ معین اسی طرح جس طرح2007 ء میں وہ جنرل پرویز مشرف کی وردی کے مسئلے پر قوم کو جل دینے میں کامیاب ہو گیا ہے مگراس دن مولوی میرے اور لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ میں مولوی کو جس بلندی پر کھڑا کر کے اس سے ضیاء الحق کے خلاف تقریر کرانا چاہتا تھا، وہاں سے اگر وہ اپنی کسی روایتی ہیرا پھیری سے نیچےگر تا تو اس کا تمام تشخص پاش پاش ہو جاتا۔ اس لئے کہ میرا حوالہ بڑا صادق اور بڑا کھرا تھا۔وہ تاریخی حوالہ رسالت مآب ﷺ کی ذات اقدس کا تھا۔ جب وہ فتح مکہ پر کعبہ میں داخل
ہوئے تو انہوں نے اپنے اعصا مبارک کے ساتھ کعبےمیں پڑے ہوئے بتوں کو ٹہو کا دے کر زمین پر گرا کر کہا تھا کہ ” حق آگیا ہے اور باطل چلا گیا۔
لہذا میں نے مولانا فضل الرحمن کو دعوت خطاب دیتے ہوئے رسول پاک کے ان کلمات کوان کی اصل زبان میں دہراتے ہوئے مولانا کو مخاطب کر کے کہا۔ مولانا اجاء الحق وزهق الباطل ۔ آئیے مولانا! اعلان کر دیں کہ حق آگیا ہے اور باطل مٹ گیا ہے۔ یہ بات میں نے
اس طریقے سے ڈرامائی انداز میں کہی اور لوگوں کی اکثریت شاید اس تاریخی واقعے سے واقف تھی۔ لوگ نعرہ تکبیر اور اللہ اکبر کے نعرے لگانے لگ گئے ۔ جلسے کا رنگ بڑا اجتہادی اور جہادی سا بن گیا۔
بخدا مولوی مائیک پر آکر مجھے داد دینے کی شکل میں خود تالی مارتا رہا۔ وہ حیران تھا کہ میں نے کیا بات کہہ دی ہے۔ گویا وہ مجھ سے اس بات کی توقع ہی نہیں رکھتا تھا یا اس کو ہرگز یہ خیال نہیں تھا کہ فوجی حکمران کہے کے بتوں کی طرح قابل نفرت بنا دیے جائیں گے اور ان کو پاکستان کے
کے سے اٹھا کر باہر پھینکنا اس طرح ضروری تھا جس طرح کعبےسے بتوں کو ہا ہر پھینکا گیا تھا۔
مولوی کی تقریر کا ایک جملہ مجھے یاد ہے جو میرے مقصد کے لئے بہت کافی تھا۔ مولوی نےکہا کہ فوجی حکمر انوں سن لو کہ تم سے نفرت کی انتہا کہاں تک جا پہنچی ہے۔ تمہارا وجودلوگوں کے لئےباطل قرار پا چکا ہے۔
اگر آپ کو یہ کتاب پی ڈی ایف میں چاہئے تو مل سکتی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top