نذر مسلم لائبریری : راولپنڈی کا علمی ورثہ جو صدی پار کر گیا مگر ہمت ہار گیا
تحریر: ابنِ محمد جی
(اس مضمون کی تیاری میں محبوب عالم اور مرزا شمس کی فیس بک تحریروں اور مختلف احباب کے تبصروں سے مدد لی گئی ہے۔)
راولپنڈی کی پرانی مری روڈ پر ایک چھوٹا سا کمرہ، چند بینچیں، ایک میز اور چند شیلف ….. یہ ہے وہ تاریخی مقام جسے اہلِ شہر ’’نذر مسلم لائبریری‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔یہ لائبریری سنہ 1924ء میں میاں نذر محمد نے قائم کی تھی، جو ایک کاتب، مطالعہ کے شیدائی اور اہلِ قلم میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ شہر کے عام شہری بغیر کسی مالی بوجھ کے علم و معلومات تک رسائی حاصل کر سکیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ذاتی محنت اور جیب سے یہ علمی گوشہ قائم کیا جو برسوں تک اہلِ ذوق کے لیے مرکزِ مطالعہ بنا رہا۔اس لائبریری کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں آنے والے قارئین سے کوئی فیس، چندہ یا رکنیت نہیں لی جاتی تھی۔اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کے بڑے اخبارات — جنگ، نوائے وقت، تعمیر، انجام، مشرق، پاکستان ٹائمز اور دیگر — روزانہ یہاں دستیاب ہوتے تھے۔مطالعے کے دلدادہ لوگ صبح سے شام تک اخبارات کے اوراق پلٹتے اور ملکی و عالمی حالات پر تبادلۂ خیال کرتے۔یہ زمانہ وہ تھا جب انٹرنیٹ، موبائل یا سوشل میڈیا کا وجود نہیں تھا، اور علم حاصل کرنے کا واحد ذریعہ کتاب، رسالہ اور اخبار ہوا کرتے تھے۔ اسی دور میں نذر مسلم لائبریری جیسے ادارے شہر کی علمی فضا کو زندہ رکھتے تھے۔
میاں نذر محمد کے انتقال کے بعد ان کے اہلِ خاندان، بالخصوص میاں احمد دین اور میاں شاہد، نے برسوں تک اس خدمت کو جاری رکھا۔ان کے پوتے میاں منان کے مطابق:
“ہمارے بزرگوں نے کسی مفاد کے بغیر لوگوں میں مطالعے کا شوق پیدا کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ علم کا دروازہ ہر خاص و عام پر کھلا رہے۔”
لائبریری کا حجم مختصر مگر کردار وسیع تھا۔ پرانے اخبارات کو کئی ماہ تک محفوظ رکھا جاتا تاکہ طلباء اور محققین استفادہ کر سکیں۔اس کے تمام اخراجات ، جن کا تخمینہ ماہانہ تقریباً بیس ہزار روپے کے قریب تھا ، خاندانِ نذر محمد اپنی جیب سے پورا کرتا رہا۔رفتہ رفتہ زمانہ بدلا، مطالعہ کے رجحان میں کمی آئی، اور لائبریری کی رونقیں بھی مدھم ہونے لگیں۔
مرزا شمس، جو 1970 کی دہائی میں اس لائبریری کے مستقل قاری رہے، لکھتے ہیں:
“میں جب بھی دفتر سے واپسی پر وہاں جاتا تو ہمیشہ قارئین کا ہجوم پایا۔ مگر جب حال ہی میں گیا تو لائبریری خستہ حال تھی، اندر صرف ایک اخبار تھا، باقی دروازے بند اور خاموشی طاری تھی۔”
عوامی تبصروں سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لائبریری اہلِ راولپنڈی کی یادوں میں ایک روشن چراغ کی مانند محفوظ ہے۔ کوئی کہتا ہے “ہم بچپن سے یہاں اخبار پڑھنے آتے تھے”، کوئی افسوس کرتا ہے “اب مطالعے کا ذوق سوشل میڈیا کی نذر ہو گیا ہے”، اور کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ “یہ لائبریری دوبارہ آباد کی جائے تاکہ آنے والی نسلیں اس ورثے سے روشناس ہوں۔”آج نذر مسلم لائبریری کا کمرہ اگرچہ وقت کی گرد میں ڈھک چکا ہے، مگر اس کے در و دیوار اب بھی ایک صدی پرانے جذبے کی گواہی دیتے ہیں یہ جذبہ اس بات کا کہ علم کی خدمت دولت سے نہیں، دل سے کی جاتی ہے۔
اگر آپ کے پاس نذر مسلم لائبریری یا میاں نذر محمد کے بارے میں مزید معلومات، تصاویر یا تاریخی حوالہ جات موجود ہوں تو براہِ کرم رابطہ کیجئے:

