راول پنڈی میری جائے پیدائش ہے۔ میں نے اس شہر کو پچھلے آٹھ عشروں میں مختلف اطوار میں دیکھا ہے۔ اب یہ ایک فوجی چھاؤنی نہیں،
جسے میں نے بچپن میں دیکھا تھا ، بلکہ پاکستان کا چوتھا بڑا شہر ہے، جس کی آبادی ۴۰ لاکھ کے قریب ہے۔ اسلام آباد سمیت کئی قریبی شہروں نے اسےچاروں طرف سےگھیر اہوا ہے۔ جس کی وجہ سے اب یہ ایک گنجان ترین علاقہ بن چکا ہے۔ جہاںانسانی مستقبل آسان نہیں ہوگا۔ اس شہر کو کئی حوالوں سے دُنیا میں جانا جاتا ہے۔ یہاں پیدا ہونےوالے بعض افراد اپنے اپنے شعبوں میں بہت معروف ہوئے ہیں۔ اُن کی ہنرمندی راول پنڈی کے لیے عزت کا باعث ہے۔میرے بچپن میں گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ایک جانب ریل وے سٹیشن تھا،صبح کا ذب کے وقت ریل گاڑی کی آواز نہایت بھلی لگتی تھی۔ اسی آواز کے حوالے سے منیر نیازی صاحب نے کہا تھا :
” ریل کی سیٹی بھی تو دل لہو سے بھر گیا “۔
رتہ امرال میں لگی ہوئی آٹے کی چکی کی کک کک کانوں میں ہلکی سے گونج کی صورت آج بھی محفوظ ہے۔ اُس چکی کی آواز کا بھی منیر نیازی صاحب نے ایک بار ایک انٹرویو میں ذکر کیا تھا۔پنجاب پر قبضے کے بعد اس شہر میں انگریزوں نے اپنی فوج کی نادرن کمانڈ کا ہیڈ کوارٹرزبنایا، جس کی وجہ سے یہاں انگریز اور ہندوستانی فوجی خاصی بڑی تعداد میں رہتے تھے۔ یہ شہرنہایت صاف ہوا کرتا تھا، جسے میں نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں دیکھا۔ بالخصوص کنٹونمنٹ کاعلاقہ بر عظیم میں ایک مثالی کینٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔پچھلے آٹھ عشروں میں میری اور میرے شہر کی زندگی میں کتنے ہی واقعات رونما ہو چکےہیں، جن میں کئی بھول گئے، بعض یا درہ گئے۔
میں ڈینیز ہائی سکول میں نویں جماعت کا طالب علم تھا، جب ہمارے سکول کے قریب مری روڈ پر کمپنی باغ میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کیا گیا۔ یہ میرے لڑکپن کے زمانے کا نا قابل فراموش واقعہ ہے۔ چھیاسٹھ برس گزر چکےہیں، مگر اہلِ پاکستان کو اس سانحے کے محرکات نہیں بتائے گئے ۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے اٹھائیس برس بعد اسی شہر میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو متنازع اور عجیب عدالتی فیصلے کےبعد سزائے موت دی گئی ۔ تئیس برس بعد اُس کمپنی باغ میں جہاں لیاقت علی خان مارے گئے تھے اوراس باغ کا نام لیاقت باغ رکھ دیا گیا تھا، وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ، جو دو دفعہ پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں، دہشت گردی کی نذر ہو ئیں۔ یہ راول پنڈی ہی نہیں ، پاکستان کی تاریخ کے بہت بڑے سانحے ہیں، مگر حقائق سے پردہ اُٹھنے کی بظاہر کوئی امید نہیں ۔ یادنگاری دل چسپ ہی نہیں، خاصا پیچیدہ معاملہ بھی ہوتا ہے۔ یادیں افراد سے متشکل ہوتی ہیں اور مقامات سے بھی۔کبھی پڑھنے والے تک لکھنے والے کا احساس منتقل ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا۔ میرے لیے راولپنڈی کے کوچہ و بازار یادوں کے محرک بھی ہیں اور علامتیں بھی۔
راولپنڈٰ ی کی یادیں: حسین احمد خان

